کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 155
عرسوں کے موقع پر بے پردہ عورتوں کا کثرت سے آنا جا نا شرم و حیا کی چادر کو تا ر تار کر دیتا ہے۔ پردے کے وہ احکام جو اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب اور سورت نور میں نازل فرمائے ہیں، کیا مزاروں پر ان کی کھلم کھلا مخالفت نہیں کی جاتی؟ امامِ کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم معصوم بھی ہیں، امت کے باپ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عورتوں سے بیعت لیتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام کے ساتھ عورتوں سے بیعت لی۔‘‘[1] لیکن ان گدی نشینوں کے سامنے کوئی عورت پردہ کر کے نہیں آسکتی کیونکہ یہ اسے ان کی گستاخی پر محمول کرتے ہیں۔ یہ ایک مختصر سا تعارف ہے مزاروں، خانقاہوں اور آستانوں کی دنیا کا جو ہماری دنیا سے کہیں زیادہ رنگین، کہیں زیادہ دلفریب اور کہیں زیادہ پرکشش ہے، ایسی قبروں اور مزاروں پر جاکر موت کسے یاد آئے گی؟ آخرت کا خیال کسے آئے گا؟ عذاب یا ثواب کی فکر کسے ہوگی؟ اللہ کا خوف کس کے دل میں پیدا ہوگا؟ دنیا سے بے رغبتی کیوں کر پیدا ہوگی؟ جن علماے کرام کے مسلک میں یہ تمام امور جائز ہیں، ان کی خدمت میں خلوصِ دل سے درخواست ہے: 1. براہ کرم! غور فرمائیں کہ چڑھاوے چڑھانے، عرس منانے، نذر و نیاز دینے، منتیں ماننے، صدقہ خیرات کرنے اور مراد مانگنے کے بہانے مزاروں، خانقاہوں اور آستانوں پر تشریف لانے والے مرد اور عورتیں معاشرے میں جس بے حیائی، فحاشی، بد کاری اور دیگر جرائم کے حیا سوز کلچر کو جنم دے رہے ہیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟ قیامت کے روز اس کی جواب دہی اور مسئولیت کس کے ذمے ہوگی؟ 2. اگر مزاروں اور خانقاہوں پر نیازیں دینا، چڑھاوے چڑھانا، مرادیں مانگنا، عرس اور میلے لگانا؛ واقعی شریعتِ اسلامیہ میں جائز اور نیکی کا کام ہے تو پھر اس خیر اور نیکی کے کام سے فحاشی، بے حیائی، بدکاری اور جرائم کا کلچر کیوں جنم لے رہا ہے؟ میری بہنو (اور بھائیو!) ایسا کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے کوئی سند نازل کی ہے نہ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۹۸۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۶۶)