کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 154
کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ خوبصورت ہے یا بد صورت، مذکر ہے یا مؤنث، نیک بخت ہے یا بدبخت، ناقص الخلق ہے یا تام الخلق ہوگا، جب رحمِ مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو پھر بابا جی کی تخلیق کس طرح ہوسکتی ہے، جو خود بھی اسی مرحلہ تخلیق سے گزر کر اس دنیا میں آئے ہیں، جس کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے رحمِ مادر میں قائم فرمایا ہے، لیکن مسلمان یہ غلط عقیدہ رکھتے ہیں کہ باباجی کی مرضی سے تخلیق ہوئی ہے۔ پھر یہ بات تو مشہور ہی ہے کہ جب سات بار اجمیر چلا جائے اس کا ایک حج ہوجائے گا۔ (والعیاذ باللہ) بلکہ ایک دیوانے نے یہاں تک کفر بک ڈالا ہے ؎
خواجہ کی گلی کا ایک چکر سو حج کے برابر ہوتا ہے
میری مسلمان بہنو (اور بھائیو!) اسی طرح بعض درگاہیں ایسی ہیں جہاں پر نوجوان لڑکیاں خدمت کے لیے وقف کردی جاتی ہیں اور بعض درگاہیں ایسی بھی ہیں جہاں پر اولاد سے محروم عورتیں نو راتیں بسر کرنے کے لیے جاتی ہیں، وہاں جا کر مجاوروں اور گدی نشینوں کی خدمت کرتی ہیں اور کثرت سے خانقاہیں منشیات، ہیروئن، چرس، فحاشی، بدکاری اور جوے کے اڈے بنی ہوئی ہیں۔ انھیں خانقاہوں کے گدی نشینوں اور مجاوروں کے حجروں میں جنم لینے والی بے حیائی پر مبنی داستانیں سنیں تو واللہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
انھیں خانقاہوں پر منعقد ہونے والے سالانہ عرسوں میں مردوں عورتوں کا کھلے عام اختلاط، عاشقی معشوقی اور شرکیہ مضامین پر مشتمل قوالیوں کی مجلس لگی ہو تو وہاں آخرت کی یاد کسے آئے گی؟ جہاں ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ نو جوان ملنگوں اور ملنگنیوں کی دھمالیں ہو رہی ہوں، وہاں منکر و نکیر کا خیال کسے آئے گا؟ جہاں پر کھلے بالوں کے ساتھ رقص عام نظر آتے ہیں، وہاں قبر کا ذکر کہاں؟
انہی رنگ رلیوں اور عیاشیوں کی باعث گلی گلی، محلے محلے، گاؤں گاؤں، شہر شہر مزار تعمیر ہورہے ہیں اور لوگ جوق در جوق آستانوں اور درگاہوں مزاروں پر جا رہے ہیں۔ یہ لوگ کھلے عام اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کر رہے ہیں، لیکن مسلمان پھر بھی ان باتوں کو شرک نہیں سمجھتے۔
اسی کا نام شرک ہے جو بد قسمتی سے محبتِ اولیا کے نام پر مسلمانوں میں عام ہے۔میلوں اور