کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 151
جانور ذبح کرنا، رکوع و سجود کرنا، ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، ان سے مرادیں مانگنا، ان کے نام کی چوٹی رکھنا اور ان کے نام کے کنگن اور چھلے پہننا، دکھ یا مصیبت میں انھیں پکارنا، مزاروں کی دیواروں کو بوسہ دینا، وہاں سے خاک لا کر کھانا ننگے گے پاؤں مزاروں پر چل کر پیدل جانا اور وہاں سے اُلٹے پاؤں واپس پلٹنا، یہ شرک نہیں تو اور کیا ہے؟یہ سارے کام تو وہ ہیں جو ہر چھوٹے بڑے مزار پر روزمرہ کا معمول ہیں۔ لیکن جو مشہور اولیاے کرام کے مزار ہیں، ان میں سے ہر مزار کا کوئی نہ کوئی الگ امتیازی وصف ہے، مثلاً: بعض خانقاہیں ایسی ہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ کی جنت کے مقابلے میں ایک دروازے کا نام ’’بہشتی درازہ‘‘ رکھا ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جو یہاں سے گزر جائے گا وہ بہشتی ہوگا۔ اس دروازے کے سامنے سارا سال قوالی اور موسیقی کا دور چلتا ہے۔ یقینا یہ ان لو گوں کی بہشت ہے، جنھیں شیطان نے گمراہ کر کے شرک میں مبتلا کر دیا ہے، ہم تو اللہ تعالیٰ سے اس جنت کا سوال کرتے ہیں، جس کے دروازے پر سب سے پہلے امامِ کائنات محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم دستک دیں گے، جیسا حدیثِ پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دستک دوں گا تو فرشتہ پو چھے گا: آپ کون ہیں؟ فرمائیں گے: میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں۔ فرشتہ کہے گا: جب سے اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی ہے اور مجھے اس کے دروازے پر کھڑا کیا ہے، یہ حکم دے کر کھڑ اکیا ہے کہ اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) دستک دیں تو دروازہ کھولا جائے، کسی دوسرے کی دستک پر دروازہ نہ کھولا جائے۔‘‘[1] جبکہ پاکپتن کا بہشتی دروازہ تو کسی ڈپٹی کمشنر یا و زیر اعلیٰ کے آ نے پر کھولا جا تا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور وزیر اعلیٰ کوئی شرابی، زانی، کرپٹ اور غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے، ایسے دروازے کو بہشتی دروازہ کہنا جنت کی توہین، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی توہین اور اللہ تعالیٰ کا براہِ راست مقابلہ کرنا ہے۔ یاد رہے اس بہشتی دروازے کے دیر سے کھلنے پر ۲۰۰۱ء؁ میں رش کی وجہ سے کم ازکم ۶۰/ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ دنیا بھر کے ذرائعِ ابلاغ سے اس سانحے کی خبر نشر ہوئی اور
[1] مسند أحمد (۳/ ۱۴۴)