کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 140
کسی کے واسطے کے بغیر دعا کرو۔ اولیا و صالحین تو خود اللہ تعالیٰ کے محتاج اور دست نگر بندے ہیں، جیسا کہ سورت بنی اسرائیل (آیت: ۵۷) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا} ’’یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں، وہ خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون اللہ کے زیادہ قریب ہے اور وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ بات بھی یہی سچ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ڈرانے کی چیز ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مشرک لوگ کہا کرتے تھے: ’’ہم فرشتوں اور مسیح و عزیر کی عبادت کرتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ ۔۔۔} یعنی یہ فرشتے جن کو تم پو جتے ہو، وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کو شاں ہیں، وہ اللہ کی رحمت پا نے کی امید ر کھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف زدہ ہیں اور جس کی خود یہ کیفیت ہو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے فریاد نہیں کی جاسکتی۔‘‘[1] مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اعمالِ صالحہ ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ بھی یہی ہے، لہٰذا اصل چیز ایمان اور عملِ صالح ہی ہے، جو پہلے صالحین کا بھی سرمایہ تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مسئلہ توحید، احکامِ شریعت اور اصولِ دین سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اے اللہ! قرآنِ کریم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا فرمایئے۔
[1] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۴۶)