کتاب: گلدستہ دروس خواتین - صفحہ 138
جن لوگوں کے بارے میں کتاب و سنت سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہیں، ان کے بارے میں بھی غلو کرنا، ان سے تبرک حاصل کرنا، ان کے طفیل اور حق کے ساتھ اللہ سے سوال کرنا جائز نہیں۔ یہ سب باتیں شرک اور بدعاتِ محرمہ کے وسائل میں سے ہیں۔ ہم بھی نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور اچھے اعمال اور بھلی عادات میں ان کی پیروی کرتے ہیں لیکن ان کے بارے میں غلو کرتے ہیں نہ ان کو ان کے مقام و مرتبے سے اونچا کرتے ہیں۔ شرک کی ابتدا نیک لوگوں کے بارے میں غلو ہی سے ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں ہوا۔ انھوں نے نیک لوگوں کے بارے میں غلو کیا اور پھر یہ غلو یہاں تک پہنچا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کی پو جا کی۔ اسی طرح اس امت میں نیک لوگوں کے بارے میں غلو کی وجہ سے’’شرک فی العبادہ‘‘ (عبادت میں شرک) شروع ہوا۔ اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلو سے باز رہنے کی بارہا تلقین کی ہے۔ سورۃ المائدہ (آیت: ۷۷) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ} ’’کہہ دیجیے: اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تعریف میں اس طرح حد سے تجاوز نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے مریم کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کی تعریف کرتے ہوئے حد سے تجاوز کیا۔ درحقیقت میں تو بندہ ہوں، تم (میرے بارے میں) صرف یہ کہو: ’’اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم کسی ولی وغیرہ کے واسطے کے بغیر صرف اسی سے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہماری فریاد کو سنے گا، یقینا وہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، جیسا کہ سورت غافر (آیت: ۶۰) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ} ’’ اور تمھارے رب نے کہا ہے:مجھ سے دعا کرو میں تمھاری فریاد سنوں گا۔‘‘ سورۃ البقرۃ (آیت: ۱۸۶) میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے: { وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ}
[1] صحیح البخاري مع فتح الباري (۶- ۴۷۸)