کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 99
کو انگریزوں نے غدر کے نام سے موسوم کیا)برپا ہوگیا جس کی لپیٹ میں مئو بھی آگیااور آپ کے والد عبدالرحیم ترک وطن پر مجبور ہو گئے چنانچہ حافظ صاحب کے والد مع اپنے خاندان کے مئو سے نقل مکانی کرکے غازی پور آگئے جب کچھ سکون ہواتو جناب عبدالرحیم نے حافظ عبداللہ کو مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخل کرادیا۔ حافظ صاحب اس مدرسہ میں مولانارحمت علی بانی مدرسہ چشمہ رحمت اور مولانا محمد فاروق چڑیا کوئی سے درسیات کی اکثر کتابیں پڑھیں اس کے بعد حافظ عبداللہ جون پور تشریف لے گئے اور مدرسہ حنفیہ کے صدر مدرس مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی سے بقیہ نصاب کی تکمیل کی۔(۔ تذکرہ علمائے اعظم گڑھ:197) جون پور کتابوں کی تکمیل کے بعد حافظ عبداللہ دہلی پہنچے اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے تفسیر و حدیث اور فقہ کی تحصیل کی اور سند فراغت حاصل کی ۔ 1297ھ میں حافظ صاحب حج بیت اللہ کے لئے حرمین شریفین تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے امام شوکانی کے تلمیذ رشید شیخ عباس یمنی سے حدیث کی سند حاصل کی حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد آپ نے مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور جہاں سے آپ نے دینی تعلیم کا آغاز کیاتھا تدریس پر مامور ہوئے اور سات سال تک اس مدرسہ میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں ۔ 1304ھ مطابق1886ء آپ مولانا حافظ ابراہیم آروی کے مدرسہ آرہ میں تشریف لے گئے اس مدرسہ میں آپ نے 1320ھ مطابق1906ء تک یعنی بیس سال تک تدریس فرمائی۔اس 20سال کے دوران بڑے بڑے جید علمائے کرام آپ سے فیض یاب ہوئے مثلاً مولانا عبدالغفور حاجی پوری، مولانا محمد سعید محدث بنارسی، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبدالرحمان محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب سیرۃ البخاری ۔ مولانا حافظ ابراہیم آروی کے انتقال کے بعد حافظ عبداللہ صاحب نے احمدیہ آرہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور دہلی کو اپنا مسکن بنالیا دہلی میں آپ کا قیام 8سال تک رہا اس 8سال میں سینکڑوں طلباء آپ سے مستفیض ہوئے اور دہلی کے قیام میں آپ نے زیادہ توجہ درس قرآن پر دی اس زمانہ میں آپکے