کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 95
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی مولانا سید اسمٰعیل غزنوی بن مولانا عبدالواحد غزنوی مشاہیر علماء میں سے تھے امرتسر میں پیدا ہوئے مدرسہ غزنویہ امرتسر میں مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا سید عبدالاوّل غزنوی سے تعلیم حاصل کی ۔ جب مولانا عبدالواحد غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی کا تعلق سلطان ابن سعودوالئ نجد و حجاز سے ہوا تو مولانا سید اسمٰعیل غزنوی بھی اپنے والد مولانا عبدالواحد غزنوی کے ہمراہ حجاز گئے اور 1926ء میں جب سلطان ابن سعود نے موتمرعالم اسلامی کا اجلاس مکہ معظمہ میں طلب فرمایااور اس اجلاس میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی چنانچہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سربراہی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا چار رکنی وفد مکہ معظمہ گیا تھا اسی وفد کے ایک رکن مولانا سید اسمعیل غزنوی بھی تھے۔ بعد میں سلطان ابن سعود نے آپ کوحاجیوں کی خدمت پر مامور فرمایا۔آپ کا عہدہ ایک وزیر کے برابر تھا اور اس منصب پر آپ مدت تک فائز رہے۔(تاریخ اہل حدیث :437) مولانا اسمٰعیل غزنوی ایک بلند پایہ عالم دین تھے آپ کو مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری مصنف’’رحمۃ للعالمین’’کاجنازہ پڑھانے کا شرف بھی حاصل ہواقاضی صاحب کا 1930ء میں حج سے واپسی پر بحری جہاز میں انتقال ہوا تھا اور مولانا اسمٰعیل غزنوی بھی اسی جہاز میں واپس آرہے تھے۔ 3۔4اپریل 1900ء لائل پور(موجودہ فیصل آباد)مغربی پاکستان جمعیۃ اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس کے صدر مولانا اسمٰعیل غزنوی اور صدر استقبالیہ مولانا محمد صدیق تھے۔راقم اس کانفرنس میں شریک ہوا جب مولانا اسمٰعیل غزنوی نے اپنا خطبہ صدارت پڑھنا شروع کیا تو خطبہ میں علمائے اہلحدیث کی علمی و دینی خدمات کا تذکرہ کیاتو اس میں مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری کا نام درج نہیں تھا۔ تو مجمع میں شو رہوگیا اور آوازیں آنی شروع ہوگئیں کہ یہ زیادتی ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کانام نہیں لیا جارہا ۔مولانا امرتسری کی خدمات بہت زیادہ ہیں اس لئے انکا نام شامل کیاجائے چنانچہ لوگوں کے اصرار پر خطبہ میں مولاناثناء اللہ امرتسری کا نام شامل کیاگیا ۔