کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 89
لاہور کے دو ردراز محلّوں سے مولانا عبدالواحد غزنوی کا درس قرآن سننے کے لئے لوگ تشریف لاتے اور ان سے روحانی فیوض و برکات سے جیب دامان بھر کر واپس جاتے۔اللہ تعالی نے مولانا کی طبیعت میں بڑا گداز پیدا کیاتھا۔ مولانا عبدالواحد غزنوی کا درس قرآن نہ صرف لاہور میں مشہور تھا بلکہ پنجاب بھر میں انکے چرچے عام تھے۔مولانا احمد علی مرحوم (حنفی)نماز فجر پڑھا کر مسجد چینانوالی میں انکے درس میں شامل ہوتے تھے اور بسا اوقات نماز فجر بھی مولانا عبدالواحد غزنوی کی اقتداء میں پڑھتے۔ مولانا احمد علی فرمایا کرتے تھے کہ : جب تک میں فجر کی نماز مولانا عبدالواحد غزنوی کی اقتداء میں نہ پڑھ لوں اور آپ کا درس قرآن نہ سن لوں مجھے سکون اور چین نہیں ملتا۔ مولانا احمد علی جب تک حیات رہے عیدین کی نماز ہمیشہ غزنوی علماء کی اقتداء میں ادا کیں۔پہلے مولانا عبدالواحد غزنوی کی اقتداء میں،پھر مولانا احمد علی غزنوی کی اقتداء میں اور آخر میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی اقتداء میں۔مولانا احمد علی غزنوی فروری 1962ء میں انتقال کر گئے دسمبر 1963ء میں مولانا داؤد غزنوی نے انتقال کیا تو مولانا عبداللہ انور مرحوم نے فرمایا ۔ اگر کوئی غزنوی عالم عید کی نماز پڑھائے گا تو ہم اسکی اقتداء میں نماز عید ادا کرینگے‘‘۔ (تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں :342) دارالعلوم تقویۃ الاسلام امرتسر کی خدمت میں مولانا عبدالواحد غزنوی نے تمام خدمات انجام دیں مولانا سید محمد داؤ دغزنوی لکھتے ہیں کہ : ’’والد بزرگوار (مولانا عبدالجبار غزنوی )کے دور برکت کے بعد ان کے بھائی مولانا عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں اللہ تعالی نے فصل خطاب و حسن بیان اور فہم القرآن