کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 82
ہم امرتسر مسجد غزنویہ میں پہنچے تو فجر کی نماز ہورہی تھی والد نے مجھے اٹھایا اور مسجد کے صحن میں رکھ دیا گھوڑی باہر باندھی اور خود وضو کرکے جماعت میں شریک ہوئے جو بزرگ امامت کرارہے تھے وہ اس درد و سوز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ دل انکی طرف کھنچا جاتا تھا نماز کے بعد انھوں نے میری طرف دیکھا ادھر والد صاحب نے آگے بڑھ کر دعا کی درخواست کی انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے جیسے جیسے وہ دعا مانگ رہے تھے یوں احساس ہوتا تھا جیسے میرے جوڑوں کی بندش کھل رہی ہے تین دن ہم وہاں رہے اور اللہ کے فضل سے میں تندرست ہوکر واپس آیا اب جسمانی حالت کیساتھ ساتھ ہماری روحانی دنیا بھی بدل چکی تھی اس لئے کہ ہم انکے مرید تھے اور وہ ہمارے مرشد ‘‘۔ دوسرا واقعہ مولانابھٹی صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ : ’’ الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قبولیت دعا کے سلسلے کے بہت سے واقعات عوام اوران کے عقیدت مندوں میں مشہور ہیں اس ضمن میں ایک عجیب و غریب واقعہ مولانا داؤد غزنوی بھی اور ایک مدراسی بزرگ عزیز اللہ (گھڑی ساز)نے بھی بیان کیا ۔عزیز اللہ صاحب 1958ء میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے مدراس سے کراچی آئے۔ کراچی سے لاہور آئے اس سفر کا مقصد محض مولانا داؤد غزنوی اور ارکان جماعت سے ملاقات تھا وہ الاعتصام کے خریدار تھے سیدھے دفترمیں آئے اور اپنانام او ر پتہ بتایا۔میں ان کے نام سے واقف تھا بحیثیت مدیر الاعتصام وہ مجھ سے آشنا تھے۔میں نے ان کواعزاز سے بٹھایا اور مدراسی ہونے کی وجہ سے کھانے کے لئے مچھلی پیش کی مولانا اس روز لاہور سے باہر تشریف لے گئے تھے میں نے مولانا کے ساتھ ان کی عقیدت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایک عرصہ ہوا مدراس سے دو آدمی چمڑے کی تجارت کے لئے امرتسر آئے ان کے ساتھ ایک مدراسی ملازم بھی تھا جس کانام اسمٰعیل تھا اسمٰعیل فجر کی نماز روزانہ الامام مولانا عبدالجبار غزنوی کی اقتداء و امامت میں ادا کرتا ایک روز انہوں