کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 81
سید محمد علی ناظم ندوۃ العلماء دوسری طرف کے کمرہ میں تھے کھانے سے فراغت کے بعد مجھ سے کہا کہ’’ مولوی حبیب الرحمان !تمہارے پاس اور کون کون بیٹھا ہوا تھا ‘‘۔ میں نے چند مشاہیر علماء کے نام بتائے مولانا برابر پوچھتے رہے کہ اور کون تھا ؟آخر میں میں نے مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی کا نام لیا کہنے لگے کہ ہاں اب میں سمجھا میرا دل بے اختیار اس طرح کھنچ رہا تھا ا سکی یہی وجہ تھی ۔(پرانے چراغ:2؍275۔276) مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی لکھتے ہیں کہ : ’’مولانا سید عبدالجبار غزنوی المقلب بہ امام صاحب بڑے عالم فاضل جامع معقول و منقول،خاندان غزنویہ کے روشن چراغ اور مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام کے بانی اول صاحب نسبت صاحب دل اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے اپنے والد عبداللہ صاحب غزنوی کے جانشین تھے غزنی سے ان کے ساتھ ہجرت کرنے میں ان کے شریک رہے صرف امرتسری ہی نہیں پنجاب بھر میں توحیدو سنت کا بول بالا انہی کی ذات گرامی سے ہوا اور مدرسہ کا فیض تو دور دور ملکوں کو پہنچا ۔آپ کی وفات 25رمضان المبارک 1331ھ کوہوئی ‘‘۔ (سیرت ثنائی :368) مولانا سید عبدالجبار غزنوی صاحب کمالات و کرامات تھے مولانا محمد اسحق بھٹی نے اپنے مضمون’’مولانا سید محمد داؤد غزنوی واقعات و تاثرات ‘‘میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے دو کرامات کا ذکر کیا ہے۔مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ : فیروز وٹواں کے ملک احمد نمبردار نے مجھ سے بیان کیاکہ : ’’میں 18سال کی عمر کا تھا مجھے گنٹھیا کا مرض لاحق ہوگیا۔والد نے بہت علاج کرائے آرام نہیں آیا۔کسی نے بتایا کہ امرتسر میں ایک بزرگ مولانا عبدالجبار غزنوی رہتے ہیں وہ دعا کرتے ہیں اورلوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اسی زمانہ میں گھوڑی کے سوا اس گاؤں میں امرتسر جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا چنانچہ گٹھری کی شکل میں والد نے مجھے گھوڑی پر لادا۔