کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 80
ساتھ یاد کیا ہے ‘‘۔ ’’صاحب المقامات الشھیرۃ والمعارف العظیمۃ الکبیرۃ ‘‘ ان کو زمانہ کیلئے باعث برکت اور ہندوستان کیلئے باعث زینت لکھا ہے ۔13ویں صدی کے آخر (1298ھ)میں انہوں نے وفات پائی۔انکے صاحبزادے مولانا سید عبدالجبار غزنوی اپنے والد نامدار کے قدم بہ قدم تھے وہی توحید و سنت کا غلبہ،وہی ترک و تجوید،وہی زہد و توکل، وہی قرآن و حدیث کی اشاعت و تبلیغ کا جذبہ،مصنف نزہۃ الخواطر نے انکا تذکرہ کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ’’ان کی ولایت اور جلالت شان پر اہل زمانہ کااتفاق ہے‘‘۔1331ھ میں انہوں نے امرتسر میں وفات پائی وہ اپنے خاص رنگ میں قرآن مجید کادرس دیتے تھے’’ہرچہ ازدل خیز دبردی ایزد’’کے بمصداق سننے والوں کے دلوں پر وہ اثر پڑتا تھاجو بڑے بڑے عالمانہ و محققانہ درسوں،علمی موشگافیوں وقتی نکتہ آفرینیوں کا نہیں پڑتا۔رجب 1320ھ؍اکتوبر1902ء میں ندوۃ العلماء کا امرتسر میں سالانہ اجلاس تھا ہندوستان کے چوٹی کے علماء اور مشاہیر شریک تھے نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمان خان شروانی راوی ہیں کہ علامہ شبلی بھی ایک دن اس درس میں شریک ہوئے وہاں سے آکر اپنا تاثر بیان کیا اور فرمایا کہ : ’’ جس وقت وہ شخص اپنی زبان سے اللہ کا نام لیتا تھا تو بے اختیار جی چاہتا تھا کہ سر اس کے قدموں پر رکھ دیجئے ‘‘۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ را ت کوکھانے پر جلسہ کے سب مہمان جو ملک کے گوشہ گوشہ سے آئے تھے اور مقامی علماء او رمعززین بھی شریک تھے جس کمرہ میں کھانا کھلایا گیا تھااس میں بیچ کے ہال کے علاوہ بغل میں دائیں بائیں کمرے تھے دسترخوان ایک تھا لیکن کمروں کے الگ ہونے کی وجہ سے ایک طرف کا آدمی دوسری طرف کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتا تھا میری نشست جہاں تھی وہاں مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی بھی رونق افروز تھے مولانا