کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 79
تھلگ رہتے تھے اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے اور مخلوق کو اللہ کی طرف بلانے میں مشغول رہتے اللہ کا ذکر بڑی باقاعدگی اور یکسوئی سے کرتے اور ذکر کے دوران ان پر بڑی کیفیت طاری ہوتی تھی میں نے امرتسر میں کئی بار ان کی زیارت کی ہے میں نے انہیں سلف صالحین کے مسلک پر پایا۔وہ علمائے ربانی میں سے تھے فتوی دیتے وقت وہ کسی معین مسلک کا التزام تو نہ کرتے تھے لیکن ائمہ مجتہدین سے سوئے ظن نہ فرماتے تھے ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں کرتے ۔‘‘( نزہۃ الخواطر :8؍219۔218) مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : ’’مولوی عبدالجبار صاحب حدیث وتفسیر میں بے بدل تھے اپنے ظاہری و باطنی اصلاح و تقوی کی وجہ سے (خود نہیں )دوسروں نے آپ کو امام صاحب کا خطاب کیا اور بجا طو پر’’(ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات :174) سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : ’’ بچپن سے جن صادق العقیدہ متبع سنت بزرگوں اور خاصان خدا کا نام عظمت و عقیدت کے ساتھ کان میں پڑا ان میں مولانا سید عبداللہ غزنوی اور ان کے خلف الرشید مولانا سید عبدالجبار غزنوی تھے یہ حضرات غزنی (افغانستان )کے رہنے والے تھے لیکن اپنے خالص عقیدہ توحید و کامل پیروی سنت وا تباع سلف کے جرم میں ان کو افضل خان امیر کابل کے عہد حکومت میں اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا اور انہوں نے الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللّٰه ۔(جو ناحق محض اس تصور میں اپنے وطن سے نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پالنے والا اللہ ہے )کا مصداق بن کر ہجرت کی اور اپنے خاندان کے ساتھ امرتسر میں سکونت اختیار کی وہ بڑے پایہ کے بزرگ،داعی الی اللہ،توحید و سنت کے مبلغ اور ناشر قرآن و حدیث تھے ان کی ولایت و بزرگی پر اس نواح کے لوگ اور اہل نظر معاصرین کا اتفاق ہے صاحب نزہۃ الخواطر نے ان کو ان الفاظ کے