کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 78
مولانا حافظ عبداللہ روپڑی امرتسری،مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی،مولانا عبدالکریم فیروز پوری (امین خاندان غزنویہ )مولانا فقیر اللہ مدراسی،مولانا حکیم عبیدا لرحمان دہلوی،مولانا محمد اسمٰعیل سلفی،مولانا حکیم عبدالرحمان پروفیسر طیبہ کالج دہلی،اور مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی وغیرہم ۔ مولانا عبدالجبار غزنوی کے انتقال 1331ھ کے بعد مولانا عبدالواحد غزنوی دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ناظم اور اس کے ساتھ منصب خلافت پر فائز ہوئے آپ امام و محدث تھے ۔1930ء میں مولانا عبدالواحد غزنوی نے وفات پائی تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی تقویۃ الاسلام کے ناظم ومہتمم مقرر ہوئے ۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی لکھتے ہیں کہ ’’ مولانا عبدالواحد غزنوی کے انتقال کے بعد جماعت کے مخلصین او رتمام خاندان نے اس عاجز کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ مولانا مرحوم کی جگہ میں کام کروں میں نے اپنے بے بضاعتی اور نااہلیت کے عذرات پیش کئے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔میں کسی لحاظ سے بھی بزرگوں کی مسند پر تمکن ہونے کا اپنے کو اہل نہ سمجھتا تھا میرے پاس اپنی کوتاہیوں کے اعتراف اپنے ذنوب و خطا پاکی ندامت و انفعال کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جماعت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا میں نے اس ذمّہ داری کو قبول کر لیا کہ شاید یہی خدمت میرے لئے کفار ہ ذنوب کا سبب اور ذریعہ بن جائے ‘‘۔(داؤد غزنوی :452) مولانا سید عبدالجبار غزنوی علم وفضل کے اعتبار سے بہت ارفع و اعلی تھے ۔ مولانا سید عبدالحی الحسنی لکھتے ہیں کہ : ’’آپ بڑے عالم او رمحدث تھے آپ کی جلالت شان اور ولایت کے اوپر تمام لوگوں کا اتفاق ہے آپ کی عمر 20سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ علم متداولہ سے فارغ ہوچکے تھے بہت ذہین تھے مطالعہ بہت کرتے تھے فہم وفراست سے انہیں وافر حصہ ملا تھا امرتسر میں قرآن و حدیث کی تدریس کے شغل ہی میں منہمک رہتے تھے دنیا و اہل دنیا سے الگ