کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 77
کیفیت اور علم و بصیرت کے ساتھ معرفت کا زر حاصل ہوتا تھا عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی کے واصل بحق ہونے کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ ان کے خلیفہ مقرر ہوئے آپ تھوڑا عرصہ زندہ رہے ان کی وفات کے بعد والد بزرگوار مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ منصب خلافت و امامت پر فائز ہوئے آپ کے عہد مبارک میں روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا۔آپ کے علم وفضل کے چرچے پنجاب سے گزر کر ہندوستان بلکہ بلاد عرب تک جاپہنچے اور اس طرح آپ کے شاگرد تمام ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پھیل گئے آپ نے اپنے عہد مبارک میں مسجد غزنویہ کی درسگاہ کو باقاعدہ دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا اوراس کے لئے ایک نظام قائم کر دیا۔ امام صاحب نے اپنی فراست ایمانی اور بصیرت قلبی کی برکت سے وقت کی اہم ترین ضرورت کو محسوس کیا علوم کتاب و سنت اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم کیلئے دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے نام سے ایک ایسی درسگاہ قائم کی جو پنجاب میں علمی اور روحانی فیو ض کے لحاظ سے عدیم النظر اور بے مثال تھی ۔(داؤد غزنوی:450) دارالعلوم تقویۃ الاسلام 1902ء؍1319ھ میں قائم ہوا اور 1947ء تک امرتسر میں دین اسلام کی خدمت،کتاب و سنت کی ترقی و ترویج،او رشرک و بدعت کی تردید و توبیخ میں کوشاں رہا۔اس مدرسہ(تقویۃ الاسلام )میں مختلف ادوار میں جلیل القدر علمائے کرام نے تدریسی خدمات سر انجام دیں ۔مثلاً: مولانا سید عبدالجبار غزنوی،مولانا عبدالرحیم غزنوی،مولانا صوفی عبدالحق غزنوی،مولانا معصوم علی ہزاروی،مولانا محمد حسین ہزاروی،مولانا عبدالغفور غزنوی،مولانا ابو اسحاق نیک محمد، مولاناسید محمد داؤد غزنوی،مولانا عبداللہ بھوجیانی وغیرہم دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے بے شمار علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے اور ان میں بعض علمائے کرام بعد میں خود مسند تدریس پر فائز ہوئے اور خدمت اسلام میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ مثلاً