کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 59
اپنے بھائی مولانا قاضی محمد مرحوم سے حاصل کی۔اس کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے تفسیر، حدیث اور فقہ میں تحصیل کی دہلی سے فراغت تعلیم کے بعد امرتسر آئے اور مولانا سید عبداللہ غزنوی کی صحبت میں رہ کر ان سے مستفیض ہوئے ۔ مولانا قاضی عبدالاحد بڑے فاضل جری اور بیباک تھے حق گوئی اور بیباکی میں ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ان کی حق گوئی کا ایک واقعہ مولانا قاضی محمد عبداللہ خان پوری نے اپنی کتاب’’تذکرہ علمائے خان پور’’میں درج کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ : ’’ قاضی صاحب حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے آپ نے بمعہ اپنی اہلیہ محترمہ کے حج کیا اس وقت کے سلطان ابن سعود مرحوم سے بھی بحیثیت دیگر علماء ملاقات ہوئی سلطان موصوف نے بدوران گفتگو کہاکہ میں نے ایک مسئلہ میں استفتاء علماء حرمین سے کیا اس کے متعلق جو فتویٰ علمائے نجد نے دیا مجھے پسند نہیں آیا لیکن جو فتویٰ میرے اپنے قاضی نے دیا وہ مجھے پسند آیا ہے چونکہ پہلی ملاقات تھی اس وقت تو آپ چپ رہے لیکن دوسرے روز جب سلطان موصوف سے پھر ملاقاات ہوئی تو آپ نے سلطان سے کہاکہ میں آج تک کبھی کسی سے نہیں ڈرا اور آپ سے غالباً یہ آخری ملاقات ہے اسلئے میں آپ پر یہ الزام نہیں چھوڑتا چاہتا کہ لوگ کہیں کہ عبدالاحد سلطان ابن سعود سے ڈر گیا تھا اس لئے گزارش ہے کہ کل جس فتویٰ کو آپ نے ناپسند کیا ہے اس کے دلائل یہ ہیں یہ کہہ کر آپ کھڑے ہوگئے ایک گھنٹہ تک پرجوش تقریر عربی میں کی اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے اعتقادات کا ذکر اس ضمن میں آگیا۔ سلطان آپ کی تقریر حیرانی سے سن رہا تھا اور تعجب کر رہا تھا کہ یہ شخص کیسا جری ہے جو مجھ سے اس طرح خطاب کر رہا ہے جس طرح ایک معمولی آدمی سے کیا جاتا ہے میرا رعب ا س پر بالکل نہیں پڑا حالانکہ بڑی بڑی سلطنتوں کے سفراء جب میرے سامنے آتے ہیں تو میرا رعب ان پر نمایاں ہوتا ہے سلطان نے آپ کی تقریر سننے کے بعد آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: