کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 55
کیساتھ چلتا رہا۔1900ء میں میرے والد مرحوم مجھے اس مدرسہ میں بھیجنا چاہتے تھے مگر تقدیر کچھ اور تھی یہ تجویز عمل میں نہ آئی مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م1337ھ)سالہا سال تک اس میں پڑھاتے رہے مولانا عبدالسلام مبارکپوری،مولانا عبدالرحمان مبارکپوری اور ہمارے دوست مولانا ابوبکر محمد شیث جون پوری اور بہت سے علماء یہاں کے شاگرد ہیں۔حافظ صاحب کے بعد مدرسہ پر زوال آیا۔ابھی چند سال ہوئے ہیں کہ مدرسہ آرہ سے در بھنگہ منتقل ہوگیا اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ کے نام سے مشہور ہے۔(حیات شبلی:3۔8) مولانا سید سلیمان ندوی مقدمہ تراجم علمائے حدیث ہند میں لکھتے ہیں کہ ’’مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی درسگاہ سے جو نامور اٹھے ان میں ایک مولانا ابراہیم صاحب آروی تھے جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا۔ اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی‘‘۔ (ص36) مولانا حافظ ابراہیم آروی بہت بڑے واعظ اور مبلغ تھے آپ نے اودھ، مدراس،بمبئی،بنگال،پنجاب اور دکن کی سیر وسیاحت بذریعہ اشاعت اسلام کرکے مردہ دلوں کو زندہ کیا آپ کے وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں مخلوق خدا راہِ مستقیم پر آگئی۔اور سارے ہندوستان میں ایک نئی روح پھونک دی حافظ صاحب قوت تحریر اور وضاحت تقریر میں یگانہ روزگار تھے۔ مولانا حافظ ابراہیم آروی بہت عمدہ مدرس، ماہر تعلیم،مجاہد، اور علوم اسلامیہ کے مقبول عالم تھے۔ اور اس کے ساتھ اعلی پایہ کے منصف بھی تھے۔آپ کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد 23ہے مشہور تصانیف یہ ہیں ۔ (1)تفسیر خلیلی 4جلد (2)طریق النجاۃ فی ترجمۃ الصحاح من المشکوۃ (3)فقہ محمدی ترجمہ و شرح الدر البہیۃ للشوکانی (4)ارکان اسلام(5)القول المزید فی احکام التقلید (6)تلخیص الصر ف (7)تلخیص النحو۔