کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 54
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔مدرسہ احمدیہ اپنے عہد کا ایک منفرد دینی مدرسہ تھا۔اس مدرسہ میں ایک طرف انگریزی تعلیم پر توجہ کی جاتی تھی اور دوسری طرف جہاد کی ابتدائی تیاریوں کی طرف بھی توجہ کی جاتی تھی۔ اس مدرسہ میں بڑے بڑے جلیل القدر علمائے حدیث نے تدریسی خدمات انجام دیں۔مثلاً مولانا حافظ عبداللہ محد ث غازی پوری اور مولانا محمدسعید محدث بنارسی اور اس مدرسہ سے نامی گرامی علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے۔مثلاً مولانا عبدالرحمان محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع الترمذی اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب سیرۃ البخاری ۔ مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی مرحوم اس مدرسہ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’مدرسہ احمدیہ آرہ اپنے عہد میں اہلحدیث بہار کی یونیورسٹی تھی جس میں تمام ملک کے طلباء حاضر رہے۔افسوس آج ہماری یہ یونیورسٹی برباد ہوگئی ہے۔(ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات :149) مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’مولوی نذیر حسین کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم آروی خاص حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوش گوار اور پر درد واعظ تھے وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔نئی باتوں میں سے اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے ۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دار الاقامۃ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا۔ اور انہی نے 1890ء میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لئے جلسہ مذاکرہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بسال جلسہ آرہ میں ہوتا تھا۔ اسمیں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی ندوہ کے قیام کے بعد 1313ھ مطابق1896ء میں اس کا سب سے پہلا جلسہ آرہ سے باہر در بھنگہ میں ہوا۔ اور وہاں بحث پیش آئی کہ ندوہ کے رہتے ہوئے اسکے قیام کی ضرورت ہے یا نہیں۔بہرحال وہ قائم رہا اور مدتوں خوش اسلوبی