کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 44
وفات مولانا سید عبداللہ غزنوی نے سہ شنبہ15ربیع الاوّل 1298ھ مطابق 1879ء امرتسر میں انتقال کیا اور دروازہ سلطن ونڈ کے باہر عبدالصمد کشمیری کے تالاب کے کنارے سپرد خاک ہوئے۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اعترافِ عظمت مولانا سید عبداللہ غزنوی بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی،فقیہ بھی تھے اور مجتہد بھی راست باز صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ سے پنجاب اور اسکے گرد و نواح میں علوم و معارف کے دریا بہا دیئے انکی علمی فیاضیوں اور عظمت و جلالت کے باعث برصغیر(پاک وہند)کے شہروں سے شائقین علوم و معارف انکے حلقہ درس میں شامل ہوکر علمی برکتیں سمیٹنے کیلئے آتے یہاں تک کہ علوم کتاب و سنت کے اسی دریا سے بے شمار نہریں کٹ کٹ کرہندوستان کے گوشے گوشے کو سیراب کرنے لگیں ۔ برصغیر (پاک و ہند)کے ممتاز اہل علم و قلم نے مولانا سید عبداللہ غزنوی کے علم وفضل کا اعتراف کیا ہے جن میں چند ایک اہل علم کے تاثرات یہاں درج کئے جاتے ہیں ۔ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی جب مولانا سید عبداللہ غزنوی کا انتقال ہوا تو مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی نے ایک تعزیتی مکتوب بنام مولانا عبداللہ بن عبداللہ و مولانا سید عبدالجبار لکھا۔ میاں صاحب لکھتے ہیں ۔ ’’از عاجز محمد نذیر حسین بمطالعہ گرامی مولوی عبداللہ ومولوی عبدالجبار رحمہم اللہ تعالیٰ بالخیر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح ہوکہ خیر و برکت کے جامع کے انتقال کی خبر سے بہت زیادہ رنج اور افسوس ہوا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ انہیں بخش دے ان پر رحم کرے اور انہیں جنت الفردوس میں داخل کرے۔