کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 42
مولانا سید عبداللہ غزنوی مستجاب الدعوات تھے۔ مولانا محی الدین احمد قصوری ان کے مستجاب الدعوات ہونے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ : ’’میرے والد مولانا عبدالقادر قصوری کے پھوپھا مولوی غلام قادر کو مولانا سید عبداللہ غزنوی سے ملنے کا بہت شوق تھا ایک دن نماز عصر کے بعد شیخ کی خدمت میں امرتسر حاضر ہوئے۔اور سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں عرض کی کہ حضرت میرے لئے دعا فرمائیں پوچھا کیادعا کروں عرض کیا کہ مجھے درد سر کا ایسا شدید دورہ پڑتا ہے کہ میں بے حال ہوجاتا ہوں اور میری نمازیں قضا ہوجاتی ہیں دعا فرمائیں کہ یہ شکایت دور ہوجائے۔ میری نماز باجماعت قضا نہ ہوچند منٹ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور فرمایا :’’قبول شد انشاء اللہ ‘‘۔دعا کے بعد میرے پھوپھا 45سال زندہ رہے اس مدت میں نہ درد سر کی شکایت ہوئی اور نہ ہی کوئی نماز باجماعت قضا ہوئی ‘‘۔(داؤد غزنوی:15) مولانا سید عبداللہ غزنوی ذکر الہیٰ بڑی توجہ سے کرتے تھے اور ان کے ذکر سے درو دیوار بھی ان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ مولانا محی الدین احمد قصوری لکھتے ہیں کہ : ’’ایک دن میاں غلام رسول قلعوی کی کسی بات پر خفا ہوکر کہنے لگے’’مولوی غلام رسول تو مولوی شدی، محدث شدی، عالم شدی، واعظ شدی واللہ ہنوز مسلمان نہ شدی‘‘یہ کہنا تھا کہ مولوی غلام رسول فرش پر گر گئے اور تڑپنے لگے۔پھر فرمایا’’بگو لا الہ الا اللہ ‘‘۔ مولانا سید عبدالجبار غزنوی کا بیان ہے کہ : ’’اس وقت مسجد کے درودیوار سے لا الہ الا اللہ کی آواز آرہی تھی ۔(داؤد غزنوی :16) مولانا سید عبداللہ غزنوی کی زندگی ایک عجیب صبرو استقامت اور اعتماد اور توکل علی اللہ کی نمونہ تھی دنیوی خواہشات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کا پورا نمونہ تھی شیخ صبر و استقامت کا پہاڑ تھے 15سال تک افغان حکومت کے مصائب و آلام کا شکار رہے لیکن پائے ثبات و استقلال میں لغزش نہیں آسکی اعلائے کلمۃ الحق میں اپنی مثال آپ تھے۔اور اللہ تعالیٰ نے ان کو