کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 38
صادر کردیا۔چنانچہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور آپ کے ساتھ آپ کے تین صاحبزادگان عالی مقام مولانا عبداللہ بن عبداللہ،مولانا محمد بن عبداللہ اور مولانا عبدالجبار بن عبداللہ گرفتار ہوئے آپ کو معہ اپنے صاحبزادگان سردار محمد عمر خان امیر’’مقر‘‘کے سامنے پیش کیاگیا تووہ آپ کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی نرم پڑ گیا او رآپ سے کہنے لگا۔ ’’آپ کیوں اس راستے کو چھوڑ نہیں دیتے جو کچھ وقت کے مولوی کرتے ہیں آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہوجائیں ‘‘۔ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’مجھ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں کتاب و سنت کو جاری کروں ۔اور مجھے یہ الہام ہوا ہے : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَائَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرِ۔(البقرۃ:120) ’’اگر تو نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس علم کے بعد جو تیرے پاس آچکا ہے تو کوئی حامی ومددگار تجھے اللہ کی سرزنش سے نہیں بچا سکے گا‘‘۔ لیکن ان لوگوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اور علمائے سوء نے امیر افضل خان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ یہ شخص راہِ راست پر نہیں آسکتا ا سکا کفر ثابت ہوچکا ہے اس لئے اس کو قتل کر دیا جائے۔اب دوبارہ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے سب علمائے سوء نے آپ کے قتل کے فتویٰ پر دستخط کر دیئے۔لیکن ملا مشکی نے دستخط نہ کئے۔ تو ا سکے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آپ کو درّے مارے جائیں سر اور داڑھی مونڈھ دی جائے اور گدھے پر سوار کرکے تشہیر کی جائے۔ تاریخ’’اہل حدیث ‘‘میں مرقوم ہے کہ ’’امیر افضل خان کی مرضی سے سب نے متفق ہو کر درّے مارنے اور گدھے پر سوار کرکے شہر میں پھرانے کا فتویٰ صادر کیا۔ چنانچہ آپکو اور آپکے تینوں بیٹوں (مولانا عبداللہ،مولانا محمد،مولانا عبدالجبار)کو شہر میں پھرایا گیا۔اور درّے مارنے شروع کئے او رجب وہ ظالم