کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 36
محمد خاں امیر کابل تھے۔انہوں نے علمائے سوء کی دل جوئی کی خاطر مولانا سیدعبداللہ کو ایک طرف ایذ اپہنچائی اور اس کے بعد جلا وطنی کا حکم صادر کردیا۔ مولانا غلام رسول مہر اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں کہ: ’’ مولانا سید عبداللہ غزنوی نے حق و صداقت کی راہ میں جو مشقتیں اور اذییتں اٹھائیں ان کا تصور بھی دل پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔وہ تنہا ایک طرف اور پوری حکومت دوسری طرف تھی۔ مگر مولانا سید عبداللہ غزنوی مرحوم و مغفور کے پائے ثبات و استقلال میں خفیف سے لرزش بھی رونما نہ ہوئی۔گھر بار چھوڑ دیا۔ وطن سے نکل آئے عزیزوں اور خویشوں سے مفارقت گوارا کر لی لیکن جن باتوں کو وہ حق سمجھتے تھے ان سے تمسک برابر قائم رکھا‘‘۔(داؤد غزنوی :31) چنانچہ امیر دوست محمد خان نے آپکو جلاوطن کریا۔ آپ غزنی سے سوات اور وہاں سے ہزارہ تشریف لائے اور اسکے بعد پنجاب آگئے اور لوگوں کو کتاب و سنت کی دعوت دی اور اسکے ساتھ کتاب و سنت پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دیتے کچھ عرصہ بعد آپ پنجاب سے ڈیرہ اسمعیل خان تشریف لے گئے۔اور وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد اپنے وطن غزنی تشریف لے گئے آپکا خیال تھا کہ اب کافی عرصہ گزر گیا ہے امیر دوست محمد خان کے حالات بدل گئے ہونگے لیکن آپکو گئے ہوئے ابھی ایک ماہ کا عرصہ گزرا کہ امیر دوست خان نے دوبارہ آپکی جلاوطنی کا حکم صادر کرایا۔لیکن آپ افغانستان کے باہر نہیں نکلے بلکہ ملک نادرہ چلے گئے اور وہاں اقامت اختیار کر لی امیر دوست محمد خان نے وہاں بھی ٹکنے نہ دیا۔تو آپ نے اپنے اہل و عیال سمیت یاغستان میں رہائش کرلی۔ علمائے سوء نے آپکے خلاف محاذ قائم کیا ہوا تھا چنانچہ انہوں نے آپ پر حملہ کرا دیا۔آپ کے بعض مرید اور عقیدت مند آپکے ساتھ تھے ان میں سے کئی ایک زخمی ہوئے لیکن آپ اور آپکے اہل وعیال کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنا فضل و کرم کیا اور اس جنگل بیابان میں اپنی نعمتوں سے نوازا آپکے فرزند ارجمند امام مولانا سید عبدالجبار غزنوی لکھتے ہیں کہ : ’’سبحان اللہ ! ان آزمائشوں کے دور میں اور جلا وطنی اور تمام جہان کی دشمنی کے زمانہ میں