کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 35
’’ میرے درس میں دوعبداللہ آئے ایک عبداللہ غزنوی اور دوسرے عبداللہ غازی پوری‘‘۔ (تراجم علمائے حدیث ہند:455) دہلی سے وطن واپسی،کتاب و سنت کی دعوت، شرک و بدعت کی تردید،مخالفت اور جلا وطنی 1857ء کے ہنگامہ میں مولانا سید عبداللہ غزنوی واپس اپنے وطن غزنی تشریف لے گئے اور توحید و سنت کی تبلیغ اور شرک و بدعت کی تردید شروع کر دی اس وقت افغانستان میں شرک و بدعت اور جاہلانہ رسوم کا عام رواج ہوچکا تھا۔ بعض علمائے حق شرک و بدعت اور جاہلانہ رسوم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ لیکن علمائے سوء کے خلاف صف آراء ہونے کی قوت نہیں رکھتے تھے علامہ حبیب اللہ قندھاری جو حضرت عبداللہ غزنوی کے مربّی استاد تھے اس زمرے میں شامل تھے مولانا سید عبداللہ غزنوی جب وطن پہنچے تو آپ نے شرک و بدعت اور جاہلانہ رسوم کے خلاف آوازحق بلند کیا اور کتاب و سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دی چنانچہ لوگ آپ کے سخت مخالف ہوگئے۔علمائے سوء نے ان کی پشت پنا ہی کی اور حکومت کو بھی آپ کے خلاف اکسایا مگر آپ نے ہمت نہ ہاری آپ نے اتباع سنت پر کمر باندھی بدعتوں اور مشرکانہ رسموں کے خلاف آواز بلند کی اور لوگوں کو علوم کتاب و سنت کی طرف دعوت دی۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی لکھتے ہیں کہ : ’’ جب آپ نے خالص توحید اور اتباع سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف آواز اٹھائی تو خواص و عوام سے بہت سے لوگ علماء اور عوام جو آپ کے ارادت مند تھے آپ کے خلاف ہوگئے اور ایذا رسانی پر اتر آئے‘‘۔(داؤد غزنوی:226) علمائے سوء میں جنہوں نے شیخ عبداللہ غزنوی کے خلاف محاذ قائم کیا ان میں ملا درّانی،ملا مشکی اور ملا نصر اللہ لوہانی پیش پیش تھے۔ ان حضرات نے حکومت کو آپ کے خلاف کیا اس وقت امیر دوست