کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 33
’’مسائل دینیہ راچنا نکہ ایں شخص می فہم من خود نمی فہم ‘‘ (دینی مسائل کو جس طرح یہ شخص سمجھتا ہے میں بھی نہیں سمجھتا )(داؤد غزنوی :221) مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ : ’’محقق قندھاری کے علم و فضل کی شہرت ان کے شاگردوں اوران کی تالیفات کے ذریعہ ہندوستان تک پہنچی چنانچہ ان کے شاگرد مولوی عبداللہ غزنوی تھے جنہوں نے پنجاب اور ہندوستان کے علمی حلقوں میں بہت عزت پائی اور لوگ اس شاگرد کے علم وافر سے استاد کی عظمت کا اندازہ لگاتے تھے‘‘۔(سیر ت سید احمد شہید :39) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی ذات محتاج تعریف نہیں آپ اپنے وقت کے عالم باعمل جلیل القدر محدث فقیہہ اور متبع سنت تھے۔ شاہ محمد اسحق دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے 1258ھ میں شاہ محمد اسحق کے جانشین ہوئے اور 62سال تک دہلی میں تفسیر،حدیث اور فقہ کادرس دیا۔ اور اس 62سال میں بے شمار حضرات آپ سے مستفید ہوئے جن کا شمار ناممکن ہے۔ لا یعلم جنود ربک الا ہو دہلی کا سفر مولانا سید عبداللہ غزنوی حدیث کی تحصیل کیلئے عازم دہلی ہوئے آپ کے شریک سفر مولانا غلام رسول قلعوی اور مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی تھے۔ مولانا محی الدین احمد قصوری نے ان کے اس سفر دہلی کی تفصیل اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کی ہے کہ : ’’ جس وقت یہ تینوں بزرگ دہلی گاڑیوں کے اڈے پر پہنچے تو ایک بزرگ آدمی کو وہاں موجود پایا جس نے ان سے پوچھ کر کہ کہاں قصد ہے ان کا اسباب اٹھالیا اور کہا کہ میں