کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 29
’’الشیخ الاجل العارف مولانا عبداللّٰه الغزنوی (رحمہ اللّٰه)ومن بنیہ الاتقیاء الصالحین اولی الفضل و الکمال اربعۃ اخوۃ: محمد المتوفی سنۃ ست و تسعین بعد الالف والمائتین۔ و عبدالجبار و عبدالواحد عبداللّٰه’’(غایۃ المقصود سید عبداللہ غزنوی کے ایک حفید سعید مولانا عبدالاول بن محمد غزنوی ہیں،جن کی خدمت حدیث و سنت لائق قدر و ستائش ہے ایک اور حفید سعید مشہور انام سید محمد داؤد غزنوی ہیں جو ہندوستان کے بلند پایہ زعیم و رہنما، عالی مرتبت فقیہ و محدث، صاحب کمال خطیب اور وسیع المشرب عالم دین تھے۔ ان کے روابط ہر طبقہ علم و فکر کے سربرآوردہ علماء و افاضل سے استوار تھے اور ہر طبقے میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بقول مولانا ابو الاعلی مودودی: ’’وہ بہرحال ایک عالم و فاضل آدمی تھے انکے علم و فضل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جو شخص ان سے ملتا تھا وہ انکے علم و فضیلت اور شریفانہ طرز سے متاثر ہوتا تھا‘‘۔ والئ سعودی عرب ملک ابن سعود رحمہ اللہ بھی ممدوح کے معتقد و مداح تھے۔ مولانا سید داؤد غزنوی کے ایک صاحبزادے سید ابوبکر غزنوی ہیں جو اپنے زہد و ورع اور علم و فضل کی بناء پر علمی حلقوں میں مشہور و معروف تھے اخلاص و للّٰہیت میں بھی کمال حاصل تھا۔ ہمارے عصر کے مشہور فاضل و مبلغ ڈاکٹرملک غلام مرتضی خان[1](1)صاحب کو موصوف سے رشتہ بیعت و عقیدت حاصل تھا۔سید ابوبکر غزنوی نے چمنستان حیات کی صرف 49 بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ 16۔ اپریل 1976ء کو لندن میں ایک حادثے میں وفات پائی۔ غزنی کے اس مبارک خانوادے کی بدولت ارض ہند پر عمدہ اثرات مرتب ہوئے، مجموعی طور پر اس خاندان کے اراکین نے علم حدیث کی نشر و اشاعت کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔صلاح و تقویٰ
[1] افسوس کہ ڈاکٹر صاحب موصوف اس سال اغیار کی چشم بد کاشکار ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔