کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 28
بل عند علماء النجد والیمن و مصر و مکۃ المعظمہ وغیر باہیں …و مسلم عندالکل ہیں اور جو ان سے تعارف رکھتا ہے وہ ان کو صادق و صالح و موصوف بصفات عدیدہ جانتا ہے۔ پس ایسے موصوف شارح و خادم کتاب و سنت کی شہادت صادق بہ نسبت مولانا موصوف غزنوی کے کس درجہ کی وقعت رکھتی ہے اور آپ کو یہ اعتقاد اس درجہ کا مولانا موصوف غزنوی کی نسبت اس وجہ سے ہوا کہ آپ شارح حدیث و محقق ہیں،آپ کے مزاج میں تعلی و تفوق و کبر کا رائحہ تک نہیں ہے۔ بہت سادہ سیدھے سچے مسلمان ہیں … پس یہ مدح سچی صرف ایک دو شخص کی نہ رہی بلکہ کل علماء عرب و عجم کی ہوئی جو مولانا عظیم آبادی کو صادق جانتے ہیں ‘‘۔(حوالہ مذکور ص11)
امام عبدالجبار غزنوی سے جن کبار علمائے ذی اکرام نے استفادہ علمی کیا ان میں بالخصوص درج ذیل لائق تذکرہ ہیں ۔
مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی،مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا فضل اللہ مدراسی (م1361ھ)، مفتی محمد حسین (حنفی)امرتسری، قاضی محمد خان پوری، مولانا محمد حسین ہزاروی،مولانا حکیم عبیدالرحمان عمر پوری رحمۃ اللہ علیہم۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے حالات پر مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی نے مستقل کتاب تالیف فرمائی تھی، مگر افسوس کہ زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی[1]
سید عبداللہ غزنوی کے پانچ صاحبزادے اور تین پوتوں نے حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بارگاہ علم سے استفادہ کیا۔یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ان اخلاف سعید کو نعمت خداوندی کے طور پر ملا۔ محدث شمس الحق ڈیانوی نے’’غایۃ المقصود’’میں سید عبداللہ غزنوی اور ان کے چار صاحبزادوں کا شمار سید نذیر حسین کے طبقہ اولی کے تلامذہ میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
[1] حضرت موصوف کے قدرے تفصیلی حالات راقم الحروف نے قلمبند کئے ہیں جو کہ ہفت روزہ’’الاعتصام’’لاہور بابت 2اگست،9اگست 2002ء،جلد 54شمارہ30۔31میں اشاعت پذیر ہوچکا ہے شائقین اس طرف مراجعت فرماسکتے ہیں ۔