کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 27
’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم ۔نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محمد و آلہ واصحابہ اجمعین۔ از عاجز فقیر حقیر محمد شمس الحق عفی عنہ۔ بگرامی خدمت ذی درجت جامع الفضائل و الکمالات ذوالمناقب الجلیلہ اخی مکرمی مخدومی مولانا عبدالجبار صاحب متع اللّٰه تعالی المسلمین بطول بقانکم و یمن علینا بشرف لقاتکم۔السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ ورضوانہ للّٰه الحمد والمنۃ کہ ہم مع الخیر ہیں اور صحت آپ کی حق تعالی سے چاہتے ہیں۔دو ہفتہ سے زیادہ ہوا کہ گرامی نامہ آپ کا پاکر ممنون و مشکور ہوئے۔ جزاکم اللّٰه تعالی خیراً۔ آپ کے مکاتیب جس وقت آتے ہیں ان کے مطالعہ سے اس قدر حظ و افر حاصل ہوتا ہے کہ ہم اس کو بیان نہیں کرسکتے مکرر سہ کرر اس کو دیکھتے ہیں تاہم تسکین نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے میرے دل میں آپ کی محبت و مودت و عظمت اس قدر بھر دی ہے کہ جسکی حالت خود ہی رب العزت جانتا اور جو جملہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے بحق علی بن المدینی رحمتہ اللہ تعالی کے کہا تھا کہ ما استصغرت نفسی الا عندا بن المدینی ویساہی ہم آپ کی شان میں کہتے ہیں کہ ما استصغرت نفسی الا عند عبدالجبار۔ فہم معنی کتاب اللہ تعالی و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ کو حق تعالی کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ فہم حضرت شیخ دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے کسی تلامذہ کو عطا نہیں ہوا ہے۔ ذلک فضل اللّٰه یوتیہ من یشاء اور اس امر کو ہم نے اپنے متعدد تحریر میں بیان کیاہے‘‘۔(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ ص 10۔11مطبوعہ مطبع شوکت الاسلام بنگلور)
اس مکتوب گرامی کو نقل کرنے کے بعد امام عبدالجبار غزنوی کے تلمیذ رشید مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی لکھتے ہیں ۔
’’یہ مولانا شمس الحق صاحب وہی حضرت معروف و مشہور بہ نزدیک و دور لا عند علماء الہند فقط