کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 24
گئے۔ سخاوت کرنیوالے، رجوع کرنیوالے، حلیم،متوکل ،متین،صابر، قناعت کرنیوالے، انہیں اللہ کی راہ میں کسی کے ملامت کی پرواہ کبھی نہ ہوئی،اللہ کی خوشنودی کو اپنے اہل وطن،اپنے مال و دولت،اپنے اہل و عیال اور خود اپنے نفس پر ترجیح دینے والے، مشہور احوال و مقامات والے، بڑے بڑے معرکوں والے ۔آپ اللہ کے دین کی مدد کیلئے صابر محتسب بن کر اٹھے، توحید و سنت کا باغ لگانے والے، میدان اخلاص کے شہسوار،زاہدوں کے پیشوا، بندوں میں یکتا، زمانے کے امام،رحمن کے ولی، قرآن کے خادم،اللہ کاتقرب حاصل کرنیوالے،آپ تمام احوال میں اللہ عزوجل کے ذکر میں مستغرق رہتے،حتی کہ آپکا گوشت،آپکی ہڈیاں،آپکے اعصاب،آپکے بال اور آپکا پورابدن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور اسکے ذکر میں فنا ہونے والا تھا‘‘۔ (غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ج1؍12۔13ط مطبع انصاری دہلی1305ھ؍1888ء) سید عبداللہ غزنوی کی بدولت امرتسر ایک روحانی مرکز بن گیا جہاں دور دور سے تشنگان علم ومعرفت اس’’چشمئہ خورشید’’کی انوار و تجلیات سے فیضاب ہونے کے لئے امڈتے چلے آتے تھے۔ پھر اس’’چشمہء خورشید’’سے جو لوگ فیضاب ہوئے، ان میں بھی کیسے کیسے باکمال و اصحاب دانش موجود ہیں ۔ مجمع فضائل ومناقب حافظ ابو محمد ابراہیم آروی بانی مدرسہ احمدیہ آرہ، شیخ الحدیث استاذ پنجاب حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی،جامع العلوم علامہ رفیع الدین محدث شکرانوی،ادیب شہیر قاضی طلا محمد پشاوری،شرف العلماء مولانا محی الدین لکھوی،عالم جلیل القدر مولانا ابو عبدالرحمن عبداللہ پنجابی گیلانی، عالم کبیر مولانا غلام نبی سوہدروی ،(مولانا مسعود عالم ندوی کے نانا بزرگوار مولانا عبدالصمد اوگانوی کے استاذ علم و معرفت )شاہ ممتاز الحق بہاری رحمۃ اللہ علیہم نے اس دانش گاہ علم و عرفان سے استفادہ کیا۔ منقول ہے کہ جب مولانا رفیع الدین شکرانوی، حضرت عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا