کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 21
نسیم سوہدروی سے میں نے کئی بار سنا کہ میں نے 1929ء میں مولانا ظفر علی خاں کے ہمراہ مولانا عبدالواحد غزنوی کی زیارت کی تھی۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی خاندان غزنویہ کے گل سرسبد تھے ان کی اپنی عملی اور سیاسی خدمات کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا والد مرحوم ان کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ :
’’مولانا سید داؤد غزنوی اپنے دور کے سب سے بڑے علمی دینی روحانی اور بہادر خاندان کے چشم و چراغ تھے بڑے وسیع العلم تھے صاحب فکر وتدبر تھے ان کی اصابت رائے اور علم و فضل کاتمام مکاتب فکر کے علماء اور سیاسی قائدین احترام کرتے تھے‘‘۔
مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا:
’’قائم ہے ان سے ملت بیضاء کی آبرو
اسلام کا وقار ہیں داؤد غزنوی
رجعت پسند کہنے لگے ان کو دیکھ کر
آیا ہے سومنات میں محمود غزنوی ‘‘
مولانا سید داؤدغزنوی کا تعلق کانگرس سے بھی رہا مجلس احرار انہی کی کوششوں سے قائم ہوئی اور اس کے ناظم اعلی رہے۔ جمیعۃ العلماء ہند کے قیام میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ اور اس کے نائب صدر رہے۔ بعد میں کانگرس سے علیحدہ ہوگئے۔ او رمسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور تحریک پاکستان میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں علمائے اہلحدیث میں تحریک پاکستان کے سلسلہ میں جن علمائے کرام نے قریہ قریہ جاکر عوام کو آگاہ کیا ان میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی سر فہرست تھے۔
مولانا سید داؤد غزنوی کے فرزند مولانا سید ابو بکر غزنوی تھے جو پہلے اسلامیہ کالج میں عربی کے پروفیسر رہے۔ بعد میں انجینرنگ یونیورسٹی میں چلے گئے۔ اور آخر میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر بنا دیئے گئے۔ پروفیسر ابو بکر غزنوی کی میں نے تقریریں سنی ہیں اور ان سے ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل ہے پروفیسر ابوبکر غزنوی بڑے ذہین،طباع اور بڑے صاحب فکر و تدبر تھے عالم باعمل تھے۔جوانی میں ہی اللہ کے حضورپہنچ گئے زندہ رہتے تو مزید نام پیدا کرتے۔
ایک دفعہ حکیم محمد سعید شہید نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ :