کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 157
مولانا ابوبکر غزنوی اس کے بعد دینیات یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر منتخب ہوئے جس کے وہ ہر طرح سے اہل تھے۔ 1976ء میں رباط میں جامعات اسلامیہ (اسلامک اسٹڈیز)کے وفاق جمعیۃ الجامعات الاسلامیہ کا جلسہ تھا جس کا نام اب رابطہ الجامعات الاسلامیہ ہے میں بھی ناظم ندوۃ العلماء کی حیثیت سے اس کا رکن اور جلسہ میں شریک تھا وہاں پاکستان سے جو مندوب آئے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ اور کن مندوبین کے آنے کی توقع ہے اس لئے کہ اب پاکستان احباب و فضلاء سے ملاقات کے یہی مواقع رہ گئے ہیں کہ ہندوستان و پاکستان سے باہر کسی علمی انجمن میں ملاقت ہو جائے انہوں نے کہا کہ دینیات یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر مولانا ابوبکر غزنوی بھی شرکت کے لئے آ رہے ہیں میں بڑا خوش ہوا کہ ہم دونوں دوست ایک دوسرے سے ملیں گے اور عہد کہن کو تازہ کریں گے اچانک ایک دن یہ خبر سنی کہ وہ لندن میں ایک موٹر کے حادثہ میں دوچار ہوئے اور اس سے جانبر نہ ہو کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ وما ندری نفس بأی ارض نموت۔ نعش پاکستان لے جائی گئی اور غالباً وہیں اپنے خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔ ان کی باطنی صلاحیتوں،علمی کمالات اور خاندانی اثرت اور طلب و جستجو کو دیکھ کر تاہی کایہ مشہور مصرع پڑھنا پڑتا ہے: خوش درخشیدوے دولت مستعجل بود‘‘۔ (پرانے چراغ:282,280,279؍2)۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی نے 16۔ اپریل 1976ء کو ایک حادثے سے لندن میں وفات پائی۔ چار دن بعد 20۔ اپریل کو نعش لاہور پہنچی اور میانی صاحب کے قبرستان میں اپنے والد مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے پہلو میں دفن ہوئے۔ تصانیف مولانا سید ابوبکر غزنوی ایک کامیاب مصنف بھی تھے آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں آپ کی تمام تصانیف مکتبہ غزنویہ شیش محل روڈ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئیں ۔ 1۔ حقیقت ذکر الٰہی