کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 156
اور اندازہ ہوا کہ عربی کا صحیح ذوق رکھتے ہیں جو اس وقت یونیورسٹیوں کے فضلاء تو الگ رہے عربی مدارس کے اساتذہ میں بھی کمیاب ہے اس کے بعد وہ برابر اپنے عہدے پر ترقی کرتے رہے۔ وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے صدر ہو گئے۔ میں برگ سبزست تحفہ درویش کے طور پر اپنی عربی اردو تصنیفات کسی ذریعہ سے پہنچاتا رہا کہ ان کو اہل نظر اور اہل ذوق بھی سمجھتا تھا اور مصنفین اور اہل قلم کی یہ جماعتی اور شاید عالمی کمزوری ہے کہ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تحریریں اور نقوش قلم اہل نظر اور اہل ذوق کی نظر سے گزریں میں نے مولانا اسمٰعیل شہید کی تقویۃ الایمان کا ترجمہ رسالۃ التوحید کے نام سے عربی میں کیا تو ان کی خدمت میں بھیجا کہ وہ خود اس مسلک کے حامل اور داعی ہیں اور ان کی کتاب اپنے والد ماجد کے تذکرہ میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے از راہ محبت میری بھی ایک تحریر شامل کی تھی اس کتاب کے ساتھ جو خط آیا وہ درج کیا جاتا ہے افسوس ہے کہ خط پر کوئی تاریخ نہیں ہے لیکن وہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور معروف بہ مدرسہ غزنویہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور سے لکھا گیا: کئی برسوں سے روح آپ کی متلاشی اور جی آپ سے ملنے کا آرزو مند ہے ایک یا دو خط بھی شاید رابطہ عالم اسلامی کے پتہ پر آپ کو بھیجے تھے۔ آپ کی خدمت اقدس میں کچھ وقت علمی اور روحانی استفادہ کے لئے رہنا چاہتا ہوں اور آپ سے ملاقات کی کیا تدبیر کروں ؟ مستقبل قریب میں پاکستان آنے کا کوئی پروگرام آپ کا ہے؟ البعث الاسلامی رابطہ عالم اسلامی کے اخبارات اور مجلات بندہ عاجز کو نہیں ملتے اور انہیں دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ والد علیہ الرحمۃ پر ایک کتاب حال ہی میں راقم نے مرتب کی ہے جس میں آپ کی بھی ایک تحریر شامل ہے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں قبول فرمائیے۔ اگر مناسب خیال فرمائیں تو البعث الاسلامی میں تبصرہ میں فرما دیجئے آپ کی کتاب رسالۃ التوحید مل گئی تھی ترجمہ بہت حسین اور معیاری ہے کرم فرمائی کے لئے ممنون ہوں۔ نیاز مند، سید ابوبکر غزنوی