کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 155
مولانا محمد اسحق بھٹی تھے لیکن یہ اخبار صرف سات ماہ تک جاری رہا۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی بڑے علم و دوست عالم دین تھے ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین بین الاقوامی شہرت کے مالک مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم و مغفور سے آپ کے دوستانہ تعلقات تھے مولانا ابوالحسن علی ندوی سید صاحب مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ’’تقسیم ملک کے بعد ایک مرتبہ میں لاہور میں حاضر ہوا تو ہمارے فاضل مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب اور ان کے رفقاء نے ازراہِ محبت جامعہ سلفیہ میں میرے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی اور اپنی جماعت کے ممتاز لوگوں اور فضلاء ندوہ کو مدعو کیا میں حاضر ہوا تو میری حیرت و ندامت کی انتہا نہیں رہی کہ مجھے وہاں ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا اور مولانا داؤد غزنوی صاحب جو میرے استاد اور بزرگوں کی صف میں تھے خود پڑھا۔ یہ ان کی بے نفسی اور تواضع کی انتہا تھی اور اس سے اس تعلق کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جو ان کو سید صاحب اور ان کے خاندان اور مسلک سے تھا۔ 1962ء میں جس سال رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد پڑی وہ حج کرنے آئے تھے رابطہ کیلئے اجلاس میں بھی وہ شریک ہوئے اور اس کے رکن منتخب ہوئے مدینہ طیبہ کے ہوٹل میں ان کی خدمت میں کئی بار حاضری ہوئی اور وہاں ان کو قلبی دورہ پڑا طبی امداد بروقت پہنچی اللہ نے فضل فرمایا اور وہ بخیریت لاہور واپس ہوئے یہ ان کی آخری زیارت و ملاقات تھی جو نصیب ہوئی۔ لاہور کے قیام کے زمانہ میں ان کے صاحبزادے مولانا سید ابوبکر غزنوی سے تعارف ہوا وہ اس وقت غالباً اسلامیہ کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر تھے معلوم ہواکہ ان کو عربی ادب کا بڑا اچھا ذوق ہے خاندانی اثرات ان میں آئے ہیں طبیعت میں بڑی صلاحیت، دین کا ذوق اور مردان خداکی تلاش اور اصلاح حال اور ترقی باطن کی فکر رہتی ہے میں نے براہِ راست یا کسی واسطہ سے اپنی عربی کی بعض تصنیفات پیش کی بڑی مسرت کا اظہار کیا