کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 154
جماعت اہلحدیث سے جو علیحدہ ہوا ہوں اب میرا ان سے کسی قسم کا تعاون نہیں ہے اور اس میں ذرہ برابر لچک نہیں ہے‘‘۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی قدرت کی طرف سے اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے روشن فکر اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ حافظ بہت قوی تھا ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ تفسیر، حدیث، تاریخ پر ان کا مطالعہ بہت زیادہ تھا ادب عربی کا بہت اعلی اور ستھرا انداز رکھتے تھے ان کی تقریر بڑی شستہ ہوتی تھی وہ فطری انشا پرداز تھے تحریر میں برجستگی ملائمت اور روانی ہوتی تھی۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے انتقال کے بعد ان کی مسند تحدیث و تدریس کے وارث ہوئے اور دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور کے مہتمم مقرر ہوئے خود لکھتے ہیں کہ: ’’والد علیہ الرحمۃ کا انتقال 16دسمبر 1963ء کو ہوا اور اس کے بعد دارالعلوم کی ذمہ داری اس بندہ عاجز کو سونپی گئی۔ راقم الحروف اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کی وجہ سے سید عبداللہ غزنوی اور امام عبدالجبار غزنوی کی مسند پر بیٹھنے کا اپنے آپ کو کسی طرح بھی اہل نہیں سمجھتا تھے لیکن اس بات کے پیش نظر کہ بزرگوں نے کتاب و سنت کا جو فیض جاری کیا ہے اور مدتوں سے جاری ہے کہیں بند نہ ہو جائے اس ذمہ داری کو قبول کیا۔ فتشبہوا ان لم تکونوا مثلھم ان التشبہ بالکرام کرام اگر تم ان جیسے نہ ہو سکو تو ان کا روپ ہی دھار و بزرگوں کا روپ دھارنا بھی ایک سعادت اور شرف کی بات ہے۔’’(داؤد غزنوی:456) مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے یکم اپریل 1927ء کو امرتسر سے ہفت روزہ توحید جاری کیا جو یکم مئی 1929ء تک جاری رہا۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی نے جولائی 1965ء میں لاہور سے ہفت روزہ توحید جاری کیا اس کے ناشر مولوی عمر فاروق غزنوی تھے اور نگران پروفیسر سید ابوبکر غزنوی اور اس کے ایڈیٹر