کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 149
حکیم صاحب نے ایک دن راقم سے فرمایا کہ: عراقی صاحب کل میں لاہور گیا تھا مولانا عطاء اللہ حنیف سے ملنے گیا انھوں نے آپ کو سلام کہا ہے اتفاق سے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا مولانا عطاء اللہ حنیف نے فرمایا میاں اندر مدر سہ میں نماز پڑھ لو مولانا غزنوی سے بھی ملاقات ہو جائے گی چنانچہ میں مولاناعطاء اللہ حنیف صاحب کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے چلا گیا نماز کے بعد مولانا عطاء اللہ صاحب مکتبہ پر تشریف لے آئے اور میں مولانا سید داؤد غزنوی کے پاس بیٹھ گیا بڑی محبت اور خندہ پیشانی سے ملے فرمانے لگے چلو اندر دفتر میں بیٹھتے ہیں چنانچہ میں مولانا کے ساتھ ان کے دفتر میں چلا گیا حال احوال دریافت کیا چائے منگوائی کچھ دیر حالات حاضرہ پر گفتگو ہوئی دوران گفتگو یہ ذکر آ گیا کہ آجکل آپ کی مسجد (سوہدرہ)میں کون خطیب ہیں میں نے بتایا مولوی علم الدین صاحب ہیں بڑے نیک سیرت انسان ہیں مولانا عطاء اللہ حنیف کے بڑے گہرے دوست ہیں اور مولانا عطاء اللہ ہر دو تین ماہ بعد ان سے ملنے سوہدرہ تشریف لے جاتے ہیں۔مولانا داؤد غزنوی نے فرمایا: حکیم صاحب میں مولوی علم الدین صاحب کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں کبھی کبھی یہاں تشریف لاتے ہیں اور مجھ سے مل کر جاتے ہیں آپ ملک صاحبان آف سوہدرہ کے بارے میں سن رکھا ہے کہ آپ کسی علم دین کو اپنی مسجد میں زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتے مولوی علم الدین ولی اللہ ہیں ان کی خدمت کرنا ان سے فیض حاصل کرو ان کی بددعا سے بچنا بڑے خدا رسیدہ عالم دین ہیں ۔ میں نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ نے مولوی علم الدین صاحب کو بتایا ہے حکیم صاحب نے کہا ہاں میں نے مولوی صاحب کو ساری بات بتائی ہے مولوی صاحب سن کر رونے لگ گئے۔حکیم صاحب اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ مولانا داؤد غزنوی جیسا صاحب کمال عالم پورے ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا اور ظفر علی خان نے سچ فرمایا تھا: قائم ہے ان سے ملت بیضا کی آبرو