کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 148
میں نے عرض کی کہ مولانا غلام نبی الربانی میرے استاذ تھے اور میں نے ان سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا بہت ولی اللہ تھے صاحب کرامات تھے سوہدرہ میں توحید و سنت کی اشاعت ان ہی کی وجہ سے ہوئی اور خاص کر ہماری ککے زئی برادری انہی کی تبلیغ و دعوت سے توحید و سنت کی راہ پر گامزن ہوئی۔ قیام پاکستان سے پہے جتنی بھی بار مولانا غزنوی سے ملاقات ہوئی دہلی میں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مستقل طور پر لاہور رہائش رکھتے تھے اس لئے گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ بڑی محبت اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے میرا مولانا ظفر علی خان سے جو تعلق تھا اس سے بخوبی واقف تھے جب بھی ملاقات ہوتی تھی حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی اور مولانا ظفر علی خان کے اشعار سننے کی فرمائش کرتے تھے میں شعر سناتا تو بہت محظوظ ہوتے۔تقریباً ہر ملاقات میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کا تذکرہ ہوتا میں نے ایک ملاقات میں مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر سنایا: جہاں اجتہاد میں سلف کی رہ گم ہو گئی ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے تو مولانا غزنوی نے سن کر فرمایا اس میں کیا شک ہے مولانا ابوالکلام مجتہد اور امام تھے ان کی علمی و فقہی بصیرت سے کون انکار کر سکتا ہے نثر کے بادشاہ تھے۔ حسرت نے سچ کہا ہے: جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر نظم حسرت میں کچھ مزہ نہ رہا مولانا ظفر علی خان کے بارے میں مولانا داؤد غزنوی فرمایا کرتے تھے کہ ان جیسا نڈر، مجاہد اور حق گو، بیباک لیڈر سارے ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا۔ مولانا ظفر علی خان اور ان کے اخبار زمیندار نے لوگوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور ہمدرد نے برصغیر کی تحریک آزادی میں جو خدمات انجام دیں اس سے انکار نہیں لیکن عوام تک آزادی کی آواز مولانا ظفر علی خان اور ان کے اخبار زمیندار نے پہنچائی۔ داغ دہلوی نے سچ کہا تھا کہ پنجاب نے ظفر علی خان اور اقبال پیدا کر کے اپنے ماضی کی تلافی کر دی ہے۔