کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 147
جامعات اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے کی طرف تھی۔ غالباً 1962ء میں میری ان سے آخری ملاقات ہوئی تو مجھے ان کا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوا کہ اب ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ میں نے عرض کی مولانا اب آپ کو زیادہ کام نہیں کرنا چاہیئے، آرام زیادہ کریں۔میں نے نبض دیکھی تو مجھے محسوس ہوا کہ اب ان کی صحت مشکل سے ہی بحال ہو گی۔ میں نے پرہیز اور آرام کا مشورہ دیا فرمانے لگے حکیم صاحب بہت کم کھاتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں لیکن زیادہ آرام نہیں کر سکتا کوئی نہ کوئی آدمی آ جاتا ہے اور اس کا کام کرنا پڑتا ہے بہر حال میں نے یہی مشورہ دیا کہ آرام کی زیادہ ضرورت ہے اس کے بعد ملاقات نہ ہوئی یہاں تک کہ وہ دسمبر 1962ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ پروفیسر حکیم عنائت اللہ نسیمؔ سوہدروی مولانا سید محمد داؤد غزنوی جامع الصفات تھے وہ بیک وقت علوم قرآن کے ماہر تھے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عالم بھی۔ وہ بیک وقت مورخ بھی تھے اور محقق بھی، متکلم بھی تھے اور معلم بھی فقیہ بھی تھے اور ادیب بھی شعلہ نوا خطیب اور مقرر بھی، بلند پایہ صحافی، نقاد اور مجاہد بھی تھے۔ حق گوئی اور بیباکی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے بہت بڑے سیاسی، مذہبی اور ملی رہنما تھے میں نے ان کا نام سن رکھا تھا مولانا ظفر علی خان ان کو بڑے اچھے پیرایہ میں یاد کرتے تھے اور ان کی ملی و سیاسی خدمات کے معترف تھے مجلس احرار میں دونوں اکٹھے رہے اس لئے ان کی خدمات کے بہت معترف تھے میں نے ان کو پہلی بار دہلی میں دیکھا تھا اور ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا مولانا غزنوی بڑے بے مثال خطیب تھے تقریر کرتے تو محسوس ہوتا کہ آگ کے شعلے برس رہے ہیں بڑی روانی سے بولتے تھے ان کی تقریر بڑی مؤثر ہوتی تھی سامعین بڑی توجہ سے ان کی تقریر سنتے تھے۔ میری ان سے ملاقات پہلی بار دہلی میں ہوئی اور اپنا تعارف کروایا کہ میرا تعلق سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ سے ہے۔ مولانا غزنوی نے فرمایا: سوہدرہ کو اچھی طرح جانتا ہوں وہاں ایک عالم دین مولانا غلام نبی الربانی (جد امجد مولانا عبدالمجید سوہدروی)تھے جو میرے دادا عارف باﷲ سید عبداللہ غزنوی مرحوم و مغفور کے مرید خاص تھے۔