کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 144
اسمٰعیل صاحب کے حوالہ کریں تاکہ جتنی جلدی ہو سکے یہ کتاب چھپ جائے۔ چنانچہ میں نے اسلام اور عیسائیت کے نام سے 96 صفحات پر مشتمل کتاب لکھی جو ستمبر 1961ء میں جمعیۃ اہلحدیث گوجرانوالہ کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی مطالعہ بہت کرتے تھے کوئی ایسی کتاب ہو گی جو ان کے مطالعہ میں نہ آئی ہو۔ اجلاس ختم ہوا کھانا کھایا گیا اور اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کی گئی۔ نماز ظہر کے بعد میں نے اجازت چاہی تو مولانا داؤد غزنوی نے مجھ سے فرمایا کہ آپ کے پاس کتاب ہے (کتاب کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہے اتنا یاد ہے کہ وہ کتاب چار جلدوں میں تھی)میں نے اثبات میں جواب دیا تو مولانا غزنوی نے فرمایا:’’کتاب مجھے بھیج دینا مطالعہ کے بعد واپس کر دوں گا‘‘۔ چنانچہ میں نے وہ کتاب مولوی امام خان نوشہروی کے ذریعہ مولانا غزنوی کو بھجوا دی تقریباً تین چار ماہ بعد مولانا غزنوی سے لاہور میں ملاقات ہوئی تو آپ نے گلہ کیا کہ آپ نے کتاب نہیں بھجوائی میں نے عرض کی کہ میں نے اسی وقت مولوی امام خان نوشہروی کے ذریعہ کتاب بھجوا دی تھی۔ مولانا نے فرمایا میرے پاس نہیں پہنچی اس کے بعد میں نے مولوی امام خان نوشہروی کو لکھا کہ کتاب مولانا غزنوی کو جلد پہنچا دی جائے لیکن کتاب ان کے پاس نہ پہنچی اور نہ ہی مجھے واپس ملی۔ مولانا غزنوی نے بھی جنوری 1963ء میں سفر آخرت اختیار کیا اور مولوی امام خان نوشہروی بھی جنوری 1966ء میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی زندگی بڑی مصروف گزری ان کے مذہبی و سیاسی کارنامے تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔1919ء تا 1947ء تک کا دور ان خیز دور تھا۔ حکومت برطانہ کے خلاف ان کی تقریریں بڑے شوق سے سنی جاتی تھیں تقریر کرتے تو معلوم ہوتا کہ آگ کے گولے برس رہے ہیں۔بڑے حق گو عالم تھے اور بڑے ٹھوس دلائل سے حکومت پر تنقید کیا کرتے تھے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں بڑا شغف تھا۔ حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے طلوع اسلام میں حدیث کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا تو میں نے پروفیسر صاحب کے مضامین کے جواب میں الاعتصام لاہور میں کئی ایک مضامین لکھے تو مولانا غزنوی نے مجھے لکھا کہ آپ کے مضامین