کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 141
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو پہلی بار امرتسر میں دیکھا اور ان سے شرف نیاز حاصل ہو بعد میں دہلی میں بھی ان سے کئی بار ملا۔ امرتسر میں میں نے انکا کتب خانہ دیکھا تھا جو بہترین تفاسیر، کتب حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسماء الرجال، تاریخ و سیر، وغیرہ پر مشتمل تھا طبقات الحنابلہ میں نے پہلی بار وہاں دیکھی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مرحوم سے بہت زیادہ قرب رہا۔ میں نے ان جیسا پرہیزگار، متقی اور صاحب علم و بصیرت عالم نہیں دیکھا مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا اتنی مصروف اور بھر پور زندگی گزارنے والا اور مطالعہ کا شوقین اور ان کی وسعت معلومات پر حیرانی ہوتی تھی۔ امرتسر میں کا کتب خانہ سکھوں نے جلا دیا تھا جس کا مرحوم کو زندگی بھر افسوس رہا جب کبھی اس کتب خانہ کا ذکر کرتے تو رو پڑتے اور مجھ سے کئی بار فرمایا کہ میں نے بڑی محنت سے یہ کتابیں جمع کیں آپ اندازہ نہیں کر سکتے بڑی مشکل سے روپے جمع کرتا اور کتابیں خریدتا۔ مولانا داؤد غزنوی بڑے وسیع المطالعہ تھے کوئی ایسی کتاب ان کے کتب خانہ میں نہ ہو گی جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو مجھے جب بھی کسی کتاب کی ضرورت ہوئی تو میرے طلب کرنے پر فوراً الماری سے نکال کر دے دیتے۔ جب میں اس کو پڑھنے لگتا تو جا بجا انکے حواشی لکھے نظر آتے۔ پاکستان میں جمعیۃ اہل حدیث کو منظم اور فعال بنانے میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں مولانا اسمٰعیل صاحب مولانا حنیف ندوی اور خاکستار نے ان کے ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں کا دورہ کیا اور جماعت اہلحدیث کو روشناس کرایا۔ مولانا غزنوی وقت کے بڑے پابند تھے ہر کام پروگرام کے تحت کرتے اور اس میں ایک منٹ کی تاخیر بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ جمعیۃ اہل حدیث کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا اور جو وقت طے کیا اس کے مطابق اجلاس کی کارروائی پورے وقت پر شروع کر دی جو ممبر وقت سے بعد آتا تو اظہار ناپسندیدگی فرماتے اور اس سے جواب طلبی کرتے کہ آپ وقت پر کیوں نہیں پہنچے اتنے منٹ دیر سے آئے ہیں ۔