کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 14
مقدمہ 1145ھ میں امام شاہ ولی اللہ دھلوی سفر حجاز سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی زندگی برصغیر (پاک و ہند)میں اشاعت حدیث اور ترویج سنت میں صرف کر دی۔ درس و تدریس وعظ و تبلیغ اور تصنیف و تألیف کی طرف پوری توجہ کی آپ نے حدیث کی اول الکتب’’موطا’’امام مالک کی دو شرحیں بنام المسوی (عربی)اور المصفی (فارسی لکھیں اور تراجم البخاری کے نام سے صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کی شرح لکھی علم اسفار حدیث میں مسلسلات (عربی)اور الارشاد الی مہمات الاسناد (عربی)مرتب فرمائی۔ اس کے ساتھ مسلک اہل حدیث کی وضاحت اور تائید کے لئے انہوں نے الانصاف فی بیان سبب الاختلاف (عربی)اور احکام الاجتہاد (عربی)لکھیں اور اس کے ساتھ ایک بے نظر کتاب’’حجۃ اللہ البالغہ’’(عربی)تصنیف فرمائی جس میں حکمت تشریح، حدیث، فقہ، تصوف، اخلاق اور فلسفہ جملہ علوم پر سیر حاصل بحث کی۔ امام شاہ ولی اللہ کی وفات 1176ھ کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ان کے جانشین ہوئے اور اپنی ساری زندگی حدیث کی تدریس اور اس کی نشر و اشاعت میں بسر کر دی۔ انہوں نے اپنی تفسیر فتح العزیز (فارسی)میں صاف طور پر تقلید کی تردید کرتے ہوئے عمل بالحدیث کی طرف توجہ دلائی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کے انتقال 1239ھ کے بعد ان کے نواسہ مولانا شاہ محمد اسحق بن مولانا محمد افضل فاروقی ان کی مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ شاہ محمد اسحق نے 20سال تک دہلی میں حدیث کی تدریس فرمائی۔ 1258ھ میں شاہ محمد اسحق نے حرمین شریفین ہجرت کی تو ان کی مسند تدریس پر شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی جنہوں نے 13 سال مولانا شاہ محمد اسحق کی خدمت میں گزارے تھے فائز ہوئے مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی نے دہلی کی مسجد واقعہ پھاٹک حبش خان میں کتاب و سنت کی