کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 135
پرواز کرگئی۔اناللّٰہ و انا الیہ راجعون۔ تاریخ 16دسمبر1963ء اور پیر کا دن تھا۔ 17دسمبر1963ء بروز منگل یونیورسٹی گراؤنڈ دس بجے صبح نماز جنازہ اداکی گئی جنازہ پر بڑاہجوم تھا نماز جنازہ ان کے رفیق خاص مولانا محمد اسمٰعیل السلفی نے پڑھائی جنازہ میں تمام مذہبی،سیاسی، اور سماجی تنظیموں کے اکابر و اعیان شامل تھے۔ مولانا غزنوی کو قبرستان میانی صاحب ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد سلیمان غزنوی کے پہلو میں دفن کیاگیا۔ جنہوں نے مولانا سے تین سال پہلے 29دسمبر1960ء کو انتقال کیا تھا۔ اولاد مولانا سید داؤد غزنوی نے دو نکاح کئے ان کا پہلا نکاح مولانا سید عبدالاوّل غزنوی کی صاحبزادی سے ہواتھا جن سے دو صاحبزادے عمر فاروق غزنوی اور ابوبکر غزنوی اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی۔صاحبزادی کانکاح ان کے چچا مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی کے پوتے احمد غزنوی سے ہواتھا جوسیشن جج تھے مولانا غزنوی کی پہلی بیوی کاانتقال 1938ء میں ہواتھا۔ 1945ء میں مولانا داؤد غزنوی نے دوسرا نکاح دہلی کے ایک معزز گھرانے میں کیا دوسری بیوی سے مولاناکی 6اولادیں ہوئیں دو صاحبزادے یحییٰ غزنوی اور احمدغزالی اور چار صاحبزادیاں۔چاروں صاحبزادیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور اپنے اپنے گھر میں خوش وخرم آباد ہیں ۔ مولانا سید داؤد غزنوی مشاہیر کی نظر میں مولاناسید داؤد غزنوی مرحوم و مغفور ایک بلند پایہ عالم دین،فصیح البیان خطیب و مقرر،صاحب فکر ونظر، مورخ،محقق، ادیب،مدبر، مذہبی و سیاسی رہنما،صحافی، دانشور، محدث اور متکلم و معلم تھے۔برصغیر پاک و ہند کے ممتاز اہل علم و قلم اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام ان کے علمی تبحر و تدبر و بصیرت کے معترف تھے ذیل میں برصغیر کے چند اہل قلم کے تاثرات درج کئے جاتے ہیں جو انہوں نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمائے۔