کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 134
توازن،صاف ستھرے لباس میں ملبوس،وقت کے پابند، قاعدے اور ضابطے میں بندھے ہوئے،تکلفات سے پاک، تصنع سے نفوذ، دوستوں کے ہمدرد،ساتھیوں کے خیر خواہ، چھوٹوں پر دست شفقت رکھنے والے،علماء کے قدر دان،بزرگان دین سے محبت اور تعلق خاطرمیں بے مثل،علم وفضل میں یکتا، فکرو دانش میں بے نظیر،تحقیق و کاوش میں منفرد، فہم و مسائل میں یگانہ،اور ان کی تعبیر میں درجہ ممتاز پر فائز،وظائف و اوراد کے خوگر، آزادی وطن کے قائد، رفتار سیاست کے نباض اور اس کے نشیب و فراز پر عمیق نگاہ رکھنے والے،عالمانہ وقار، صوفیانہ عادات، بزرگانہ اطوار،شاہانہ مزاج،بہادرانہ خصال، مجاہدانہ کردار، شجاعانہ یلغار۔یہ تھے مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ:22) وفات مولانا سید داؤد غزنوی 1961ء سے بیمار چلے آرہے تھے دل کاعارضہ تھا علاج و معالجہ ہوتا رہتا تھا جس سے افاقہ ہوجاتا تھا 1962ء میں جب شاہ سعود کی دعوت پر حجاز گئے تو مدینہ منورہ میں ان کودل کا شدید دورہ ہوا تاہم بروقت طبی امداد پہنچنے سے کچھ افاقہ ہوا اور طبیعت سنبھل گئی اور مولانا بخیروعافیت واپس لاہور آگئے یہاں آکر دوبارہ تکلیف ہوئی تو ڈاکٹر بلیغ الرحمان کے زیر علاج رہے اور انکی طبیعت سنبھل گئی تاہم کمزوری بہت زیادہ ہوگئی تھی اور کمزوری میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا تھا۔آخری دنوں میں بات بہت کم کرتے تھے۔ رب اغفر و ارحم و انت خیر الراحمین اکثر پڑھتے رہتے تھے ایک رات شدت کادرداٹھاصبح کے قریب کچھ افاقہ ہواتو نیند آگئی صبح کی نماز فوت ہوگئی آپ روتے تھے اور بار بار فرماتے تھے ۔ربنا لا تواخذنا ان نسینا اواخطانا،ربنا لا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا،ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنا بہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین۔ اور اس کے بعد حسرت سے فرمایا۔آہ یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ آخری دن صبح کی نماز پڑھی ناشتہ کیا ساڑھے نوبجے دل کاشدید دورہ پڑا اور روح قفس عنصری سے