کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 131
مولانا ظفر علی خان اور مولانا سید داؤد غزنوی کابرسوں ایک ساتھ تعلق رہااور مولانا ظفر علی خاں قادر الکلام شاعر تھے۔اللہ تعالی نے ان کو اس وصف سے نوازا تھا کہ کوئی واقعہ پیش آجاتا تو فوراً اس کے متعلق اشعار ان کی زبان پر آجاتے ۔ ایک مرتبہ حکومت برطانیہ نے مولانا ظفر علی خان،شیخ حسام الدین،سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، اورمولانا سید داؤد غزنوی کو ایک ہی وقت گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا۔ تیسرے دن ان سب کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم ملااور پولیس انہیں عدالت میں حاضری کے لئے لینے آئی تو مولانا سید داؤد غزنوی نے عدالت میں جانے سے انکار کردیا۔ پولیس نے بازوں سے پکڑ کر انہیں گاڑی میں بٹھانا چاہا تو مولانا زمین پر لیٹ گئے چنانچہ پولیس نے مولانا غزنوی کو کندھوں پر اٹھایا اور گاڑی میں بٹھاکر عدالت میں لے گئے جب عدالت میں پہنچے تو گاڑی سے اترنے سے انکار کر دیا تو پولیس نے مولانا کو گاڑی سے اٹھا کر عدالت میں پیش کیا مولانا ظفر علی خاں یہ منظر دیکھ رہے تھے اسی وقت یہ شعر موزوں ہوگئے۔ دی مولوی داؤد کو چڈی جو پولیس نے احباب نے پوچھا بہ تعجب کہ یہ کیاہے کیوں لدکے چلے دوش حکومت پہ حضور آج حضرت کی سواری کاطریقہ یہ نیاہے فرمانے لگے نہیں کے کہ میں عالم دیں ہوں اور مرتبہ سرکار میں عالم کا بڑاہے اس واسطے مرکب کے عوض فرط ادب سے خود اپنے تئیں پیش عدالت نے کیاہے ہے فخر یہ مجھ کو میری ران کے نیچے خود حضرت عیسیٰ کی سواری گدھاہے۔[1]
[1] ظفر علی خاں اور ان کا عہد ص:58