کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 129
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
ظفر علی خان
ہے جن کے دل میں آزادی کی دھن ان نوجوانوں کو
وطن کے عشق کی پاداش میں سولی پر لٹکانا
بہادینا کسی کی راکھ کو ستلج کی موجوں میں
کسی کی لاش اٹک کے پار خاک و خوں میں تڑپانا
اقبال
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتاہے
مزاتوجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
حفیظ جالندھری
آنے والے کسی طوفان کارونا روکر
ناخدا نے مجھے ساحل پرڈبونا چاہا
غالب
نظر نہ لگے کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
درد
اے درد ؔ کہوں کس سے بتا راز محبت
عالم میں سخن چینی ہے یاطعنہ زنی ہے
حالی
ہوعیب کی خویا کہ ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت