کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 124
مساجد میں بہت زیادہ حصہ لیتے تھے لیکن جمعیۃ اہلحدیث کے ناظم اعلی اور ایک دینی دارالعلوم کا سربراہ بن جانا جماعت اہلحدیث کی بدقسمتی تھی۔ میاں فضل حق نے صدر جامعہ سلفیہ کمیٹی منتخب ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مولانا محمد صدیق فیصل آبادی اور مولانا محمد اسحق چیمہ سے کہا کہ آپ دونوں حضرات انتظامی کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں اگر مستعفی نہیں ہونگے تو میں بحیثیت صدر کمیٹی آپ دونوں کو برطرف کر دوں گا۔ جامعہ سلفیہ کے جملہ حسابات میری تحویل میں ہیں جب تک میرے حسابات کاآڈٹ نہ ہوجائے مستعفی نہ ہوں گا۔ فضل حق صاحب نے کہا اگر آپ مستعفی نہ ہوئے تو میں آپ کو برطرف کرتا ہوں مولانا محمد علی جانباز لکھتے ہیں کہ : '' میاں فضل حق کے اس فیصلے پر کچھ جید علمائے کرام نے سخت اظہار ناراضگی کیا۔ اور مولانا سید محمدداؤد غزنوی کے نوٹس پر دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تمام ارکان مجلس عاملہ نے میاں صاحب کے فیصلہ پر شدید احتجاج کیا چنانچہ مجلس عاملہ کے اسی اجلاس میں میاں صاحب کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا مگر مولانا محمد اسحق چیمہ صاحب دلبرداشتہ ہوچکے تھے اس لئے انہوں نے ارکان مجلس کے اصرار بالتکرار کے باوجود اپنااستعفی پیش کر دیا۔ اس باہمی آمیزش کی وجہ سے جامعہ سلفیہ ایک قابل قدر مدبر، بلند پایہ منتظم اور شفیق استاد سے محروم ہوگیا جس کا تمام طلباء اور اساتذہ متعلقین مدرسہ کو شدید صدمہ ہوا’’۔(تذکرہ علمائے اہل حدیث :2؍80۔81) مولانا سید ابوبکر غزنوی مرحوم جماعت اہل حدیث کی تنظیم کے سلسلہ میں مولانا سید داؤد غزنوی کی سعی و کوشش کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’1947ء میں تقسیم ملک کے بعد جماعت اہلحدیث کی از سر نو تنظیم پر انہوں نے اپنی توجہ