کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 121
طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے فارغ التحصیل’’علیگ’’ندوۃ العلماء لکھنؤ کے’’ندوی’’جامعہ اسلامیہ دہلی کے دہلوی اور مظاہر العلوم سہارن پور کے’’ مظاہری ‘‘کہلاتے ہیں اسی طرح جامعہ سلفیہ کے فارغ التحصیل’’سلفی’’کہلائیں گے چنانچہ متفقہ طور پر دارالعلوم کانام جامعہ سلفیہ منظور کر لیا گیا۔ آپ نے فرمایا : ’’مرکزی دارالعلوم کی تجویز سے ارباب مدارس محسوس کرتے ہیں کہ شاید اس کے بعد ہمارے مدارس موجودہ حالت میں نہ رہ سکیں آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ میں خود ایک مدرسے کا مہتمم ہوں لیکن مجھے کبھی یہ فکر دامن گیر نہیں ہوئی کہ یہ مدرسہ ختم ہوجائے گا اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ مرکزی دارالعلوم کا مقصد موجودہ مدارس کو ختم کرنا نہیں بلکہ ان کوخوبصورتی سے چلانا ہے مجوزہ دارالعلوم کی حیثیت ایک یونیورسٹی کی ہوگی اور یونیورسٹیاں اجزاء ہوتے ہیں ہمارادارالعلوم ان مدارس کاسرپرست ہوگا۔انہیں معقول نصاب دے گاان کے لئے قابل اساتذہ مہیاکرے گا ان کے سالانہ امتحانات کاانتظام کرے گا اور فارغ التحصیل علماء کو نہ صرف سند دے گا بلکہ ملک اور بیرون ملک سے اس سند کا شایان شان احترام کرائے گا آپ دارالعلوم کی اس پوزیشن اور اس کے بعد جماعت کے وقار کا تصور فرمائیے اور اندازہ کیجئے کہ پھر ہمارے فارغ التحصیل علماء کو کس قدر احترام اور وقار حاصل ہوگا‘‘۔(میاں فضل حق اور انکی خدمات:190) اس وقت جامعہ سلفیہ کے قیام کااعلان ہوا اور قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور ہوگئی۔لیکن یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ جامعہ سلفیہ کس شہر میں بنایا جائے گا تقریباً ایک سال بعد یہ فیصلہ ہوا کہ جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا آغاز کر دیا جائے اور ا سکی کلاسیں تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور کی بلڈنگ میں شروع کی جائیں۔اس کے لئے جو نصاب ترتیب دیاگیا وہ یکم جون 1956ء کے الاعتصام میں شائع ہوا اور اس کے مطابق طے پایا کہ : 1۔مولانا سید محمد داؤد غزنوی علوم قرآن پڑھائیں گے ۔