کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 12
رہے ہیں۔بڑے فصیح البیان مقرر تھے۔ جرأت، بیباکی، حق گوئی اور انگریز دشمنی میں پیش پیش تھے۔ علم و فضل کے اعتبار سے جید عالم دین تھے علوم اسلامیہ کے بحر ذخائر تھے۔
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی کی خدمات جلیلہ قدر کے قابل ہیں۔جلالۃ الملک سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمن والئ سعودی عرب سے ان کے گہرے تعلقات تھے انہوں نے ان کو حاجیوں کی خدمت پر مامور فرمایا۔ ان کا درجہ ایک وزیر کے برابر تھا ساری زندگی حاجیوں کی خدمت پر مامور رہے۔
مولانا سید ابوبکر غزنوی کی خدمات بھی قدر کے قابل ہیں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہو گئے۔ عمر تھوڑی پائی زندہ رہتے تو نام پیدا کرتے۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے حالات زندگی نزہۃ الخواطر کی ساتویں جلد میں مولانا سید عبدالحئ الحسنی نے لکھے ہیں،آپ کے فرزند ارجمند مولانا سید عبد الجبار غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی نے سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمائی۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے تاریخ اہلحدیث میں ان کے مختصر حالات لکھے ہیں مولانا سید ابوبکر غزنوی نے بھی سیدی و ابی کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمائی جس میں مولانا سید داؤد غزنوی پر 24 اہل قلم کے مقالات درج کئے ہیں اور خود بھی مولانا غزنوی کے حالات زندگی اور ان کی علمی و دینی اور سیاسی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے شروع میں مولانا سید عبداللہ غزنوی کے تفصیل سے حالات لکھے ہیں ۔
مولوی بدرالزمان محمد شفیع نیپالی نے’’الشیخ عبداللہ غزنوی‘‘کے نام سے 168 صفحات پر ایک کتاب مرتب فرمائی جو 1984ء میں محترم ضیاء اللہ کھوکھر (گوجرانوالہ)نے شائع کی اس میں سید عبداللہ غزنوی کے حالات زندگی اور ان کے علمی حالت کا تذکرہ ہے علاوہ ازیں آپ کے اساتذہ معاصرین اور مشہور تلامذہ کا بھی ذکر کیا ہے۔
میں نے اپنی اس کتاب میں مولانا سید عبداللہ غزنوی کے حالات کے علاوہ ان کے صاحبزادگان عالی مقام’’مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا سید عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور پوتوں میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا عبدالاول غزنوی، مولانا عبدالغفور