کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 115
فن کے لحا ظ سے بڑے اچھے سلیقے سے اس کو رکھتے تھے مولانا کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ جو کتاب مطالعہ کرتے اس پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر ضرور حواشی اور نوٹس رقم فرماتے۔ مولانا غزنوی بلاد و عرب سے بڑی اچھی اور نایاب کتابیں منگواتے رہتے تھے مولانا اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ : ’’ فقہائے حنابلہ کے حالات میں مصر سے طبقات الحنابلہ(جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے )مولانا غزنوی نے سب سے پہلے مصر سے منگوائی ایک دفعہ مولانا ابو الکلام آزاد نے آپ کا کتب خانہ دیکھا تو اس میں طبقات الحنابلہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا میں یہ کتاب لے جانا چاہتا ہوں مولانا غزنوی نے کتاب دے دی اورپھر یہ واپس نہ آئی اور مولانا غزنوی نے دوبارہ اپنے کتب خانہ کیلئے منگوائی‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ: 25۔26) امرتسر میں آپ کاکتب خانہ سکھوں نے تباہ وبرباد کردیامولانا غزنوی مرحوم کو تمام زندگی اس کا صدمہ و افسوس رہا۔ پاکستان آکر مولانا غزنوی نے نئے سرے سے کتابیں جمع کیں اور ایک بہترین کتب خانہ بنایا آپ کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ مولانا سید ابوبکر غزنوی کی تحویل میں رہا اور مولانا ابوبکر غزنوی کے انتقال کے بعد اب اس کتب خانہ کے انچارج مولانا غزنوی کے دوسرے صاحبزادے مولوی یحییٰ غزنوی ہیں ۔ فتوی لکھنے کا طریق کار: مولانا سید محمد داؤد غزنوی ایک جید عالم دین تھے علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اپنے ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کی بنا پر تفسیر،حدیث فقہ ائمہ اربعہ پر کامل عبور تھا اس لئے آپ فتوی بڑی تحقیقی اور ٹھوس دلائل کی روشنی میں رقم فرماتے تھے مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ : ’’مولانا سید داؤد غزنوی فتوی بڑی تحقیق سے لکھتے تھے مسئلہ طلاق کے بارے میں مولانا احمد علی صاحب لاہوری سے اگر کوئی شخص فتوی لینے آتا تو وہ اسے مولانا غزنوی کے پاس جانے اور ان سے فتوی لینے کی ہدایت فرماتے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں اہلحدیث