کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 111
نئی روشنی اور جدید رجحانات سے متاثر کسی عالم نے حدیث نبوی سے متعلق ایسے خیالات کااظہار کیا جو عقیدہ سلف صالحین کے منافی ہوتا تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی فوراً اس کا نوٹس لیتے اپنے خطبات جمعہ میں دلائل سے ان کی خرافات کا جواب دیتے اور تحریری طور پر بھی اس کا جواب لکھتے۔ مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ : ’’ 1959ء 1378ھ میں عیدالاضحی کا خطبہ دیتے ہوئے مولانا غلام رشید (حنفی دیوبندی)خطیب شاہی مسجد لاہور نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ پاکستان کے ارباب اقتدار کو قربانی کے جانوروں کی ایک تعداد مقرر کرنی چاہیئے اور حکم جاری کر دینا چاہیئے کہ اس سے زیادہ جانور ذبح نہ کئے جائیں انہوں نے کہا کہ فقہائے کرام کا ارشاد ہے کہ اگر قربانی کے جانوروں کی قیمت کسی قومی فنڈ میں ادا کرنے دیجائے تو اس رقم کو مذہبی اعتبار سے قربانی تصور کیا جائے گا۔ مولانا سید داؤد غزنوی نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور الاعتصام میں قربانی کی شرعی حیثیت سے کے ایک مضمون لکھا جس میں حدیث نبوی آثار صحابہ اور اقوال فقہاء سے مولانا غلام مرشد کے نقطہ نظر کی تردید کی اور ثابت کیا کہ قربانی سنت ابراہیمی ہے یہ اسی طرح جاری رہے گی اور اسمیں کسی قسم کی ترمیم یاردّو بدل نہیں کیاجاسکتا‘‘۔( نقوش عظمت رفتہ:67) مولانا سید داؤد غزنوی بڑے نڈر اور بیباک تھے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرماتے تھے اور اس سلسلہ میں کسی حاکم یا عالم کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔تحریک پاکستان کے نامور راہنما سردار عبدالرب نشتر کاکراچی میں انتقال ہوگیا تو لاہور موچی دروازہ کے باغ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیاگیا جنازہ مولانا غلام مرشد نے پڑھایا مولانا سید داؤ د غزنوی بھی جنازہ پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ : ’’میں نے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد مولانا غلام مرشد سے عرض کی کہ آپ کے فقہی مسلک