کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 110
سعود کراچی سے لاہور آئے تو مولانا غزنوی سے ملاقات کی اور دیر تک مصروف گفتگو رہے ۔ مئی 1962ء میں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے اپنے سفیر پاکستان کی وساطت سے مولانا داؤد غزنوی کویہ اطلاع دی کہ انہوں نے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے انہیں یونیورسٹی کی مشاورتی کونسل کارکن منتخب کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ پیغام بھی بھجوایا کہ 20ذی الحجہ 1381ھ 25مئی 1926ء کو مدینہ یونیورسٹی کاافتتاح ہورہا ہے اس لئے ایسے وقت میں تشریف لائیں کہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کر سکیں چنانچہ مولانا غزنوی 7مئی 1962ء کولاہور سے روانہ ہوئے اور 9مئی 1926ء کو عازم حجاز ہوئے او ر 15جون 1962ء کو واپس لاہور تشریف لائے۔(نقوش عظمت رفتہ:67) مسلک مولانا سید محمد داؤد غزنوی خالصتاً سلفی المسلک تھے کتاب وسنت پر سختی سے عامل اسمیں کسی قسم کی مداہنت کے قائل نہ تھے تاہم ائمہ دین کا بہت احترام کرتے تھے اور انکی دینی و علمی خدمات کے معتر ف تھے۔اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : ‘‘ائمہ دین نے جو دین کی خدمت کی ہے امت قیامت تک ان کے احسان سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی ہمارے نزدیک ائمہ دین کیلئے جو شخص دل میں سوء ظن رکھتا ہے یازبان سے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ اس کی شقاوت قلبی کی علامت ہے اور میرے نزدیک اسکے سوء خاتمہ کا خوف ہے ہمارے نزدیک ائمہ دین کی ہدایت و درایت پر امت کا اجماع ہے‘‘۔(داؤد غزنوی:273) حدیث نبوی سے محبت اور شغف مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ شغف اور عشق تھا اور حدیث کے معاملہ میں کسی قسم کی معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے جب بھی کسی منکرین حدیث اہل قلم یا