کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 109
کیااور پھر کہا ۔ مولانا میں نے آپ کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ ہم نے جو آئین تیار کیاہے وہ آپ نے پڑھا ہوگا آپ سے یہ دریافت کرناہے کہ اس آئین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ مولاناغزنوی نے تفصیل سے آئین کے تمام پہلوؤں کی وضاحت کی اور آخر میں واضح الفاظ میں فرمایا کہ : آپ کا یہ آئین نہ اسلامی ہے نہ جمہوری مولانا کا یہ جواب سن کر صدر ایوب خان خاموش ہوگئے اور گفتگو کا موضوع بدل دیا۔(نقوش عظمت رفتہ :65۔66) سعودی حکومت سے غزنوی خاندان کے مراسم سعودی حکومت سے غزنوی خاندان کے مراسم او ر تعلقات بہت پرانے چلے آرہے تھے سعودی عرب کے موجودہ فرمانبردار خادم الحرمین شریفین کے دادا عبدالرحمان اور والد ملک عبدالعزیز کویت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے اس زمانے میں مولانا داؤد غزنوی کے چچا مولانا عبدالواحد غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی تجارت کے لئے امرتسر سے کویت گئے تو ان کی ملاقات عبدالرحمان اور سلطان عبدالعزیز سے ہوئی تو انہوں نے ان دونوں بھائیوں سے کہاکہ آپ ہمارے ہاں درس وتدریس کاسلسلہ شروع کریں چنانچہ مولانا عبدالواحد غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی نے پانچ سال تک سعودی خاندان کو علم دین پڑھایا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ تعلقات مستحکم ہوتے گئے۔ 1926ء میں علمائے ہند کا ایک وفد سلطان عبدالعزیز کی دعوت پر بعض معاملات میں گفتگو کے لئے حجاز گیا اور مولانا سید داؤد غزنوی اس وفد میں شامل تھے اور سلطان عبدالعزیز ان سے بہت اعزا ز و احترام سے پیش آئے۔ 1954ء میں سلطان عبدالعزیز کے بڑے بیٹے سلطان سعود بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو مولانا داؤد غزنوی انکے استقبال کے لئے کراچی تشریف لے گئے اور جب سلطان