کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 103
فرمایا کہ : ’’انگریز مجلس کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور کانگرس ہی ایک ایسی جماعت تھی جسے برطانوی حکومت در خود اعتنا سمجھتی تھی اور وہی ایک واضح اور لائحہ عمل پیش نظر کر برطانوی سامراج سے برسرپیکار تھی اسی بنا پر میں کانگرس میں شامل ہوا تھا‘‘۔(داؤد غزنوی :247) کانگرس میں شمولیت کے بعد آپ کو پنجاب کانگرس کاصدر مقرر کیاگیااور اس جماعت کے ٹکٹ پر آپ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے مقابل لیگی امیدوار تھا جو بھاری اکثریت سے شکست کھاگیا اور مولانا غزنوی کی کامیابی عوام میں ان کے اثر ورسوخ اور ہر دلعزیزی کا واضح ثبوت تھا۔ کانگرس میں مولانا چار سال رہے اور 2اگست 1946ء کو علیحدہ ہوئے ۔کانگرس سے علیحدگی کاسبب ہندوؤں کی تعصبی تنگ نظری اور ہندو مسلم اتحاد میں رخنہ اندازی تھی مولانا نے کانگرس سے استعفیٰ دیتے وقت اپنے ایک اخبار بیان میں فرمایا تھا کہ : ’’ہر قسم کی مساوات کی مخالفت کرکے کانگرس نے مسلمانوں کیلئے فکر وتدبر کاسامان بہم پہنچا دیا ہے اگر آج کانگرس کا مفہوم اور مقصد صرف اسی قدر رہ گیا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے ہندوؤں کی سیاسی اور اقتصادی بہبود اور ترقی کیلئے کوشاں رہے توان مسلمانوں کیلئے اسمیں ٹھہرنے کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے جو اسمیں اسلئے شامل ہوئے تھے کہ یہ آزادی کیلئے انگریز سے لڑ رہی ہے ‘‘۔( داؤد غزنوی:247) مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ تعلقات کادائرہ وسیع تھا مولانا محمد اسحق لکھتے ہیں کہ میں نے ایک دن مولانا داؤدغزنوی سے دریافت کیا کہ آپ نے کانگرس سے علیحدگی اور مسلم لیگ میں شامل ہونے سے متعلق مولانا ابو الکلام آزاد سے مشورہ کیاتھا تو مولانا غزنوی نے فرمایا کہ : ’’جب میں نے کانگرس سے استعفا دیا اور مسلم لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کیاتو اس وقت میں دہلی میں تھا اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کیساتھ یہ خبر شائع ہوئی اور بی بی سی